اسلام اور ردّ مغربی فکر وتہذیب
’حمیت‘ اور ’حکمت‘ میں توازن کی بحث
جناب احمد جاوید صاحب کے ارشادات
کچھ دن پہلے معروف بزرگ دانشور، مربی اور ماہر معقولات جناب احمد جاوید صاحب کے ساتھ ایک فکری واصلاحی نشست ہوئی۔
میرے ساتھ مولانا زاہد الراشدی صاحب ،پنجاب یونیورسٹی شعبہ علوم اسلامیہ کے ڈاکٹر حسن مدنی صاحب ،یونیورسٹی آف لاہور کے پی ایچ ڈی سکالر جناب عمران طحاوی صاحب بھی تھے۔ استاد گرامی نے جہاں حسب روایت موثر اصلاحی گفتگو فرمائی، جاوید غامدی صاحب کی دینی فکر کی واضح اور دوٹوک انداز میں مذمت کی، وہیں راقم کو یہ نصیحت بھی کی کہ جہاں طاقت میں توازن نہ ہو وہاں صرف حمیت کام نہیں آتی بلکہ حکمت سے بھی کام لینا چاہیے۔
ظاہر ہے اصولی طور پر آنجناب کی بات درست ہے کہ طاقت کے توازن کی اہمیت مسلمہ ہے ورنہ حضرت خالدبن ولیدؓ جیسا جلیل القدرصحابی اور عظیم سپہ سالار جنگ موتہ میں پسپائی اختیار نہ کرتا اورآنحضرت ﷺ ان کی تائید نہ فرماتے۔ یاہمارے اپنے ہاں برصغیر میں علماء کرام عسکری شکست کے بعد مساجد ومدارس تک محدود ہو کر نہ رہ جاتے۔ خود قرآن نے بھی اپنے سے دو گنا بڑی طاقت کے مقابلے میں ہی فتح کا وعدہ کیا ہے،زیادہ کا نہیں ۔
تاہم اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس سے صَرف نظر ممکن نہیں اور وہ عزیمت کا رخ ہے جس کی تائید قرآن وسنت کی صریح نصوص کرتی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام ۹۵۰سال تک دعوت دیتے رہے اس کے باوجود کہ ان کی محنت کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا۔ کئی انبیاء قتل کردیئے گئے لیکن وہ دعوت دینے سے باز نہ آئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود فرعون جیسے خود کو خدا کہلوانے والے متکبر اور باجبروت حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہتے رہے۔ خود نبی کریمﷺ نے ابتداء میں تن تنہا اور بعد میں چند جھیلا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مارکھا کھا کر جوتوں میں خون بھر گیا اور شہر میں داخلے کا یارا نہ رہا۔ قوت کا توازن اس وقت بھی نہ تھا لیکن آپ مایوس ہوئے نہ دعوت سے باز آئے بلکہ طاقت کا توازن تو بدرواحد میں بھی نہ تھالیکن آپ کو خدا کی نصرت پر یقین تھا جس نے اپنی کتاب میں وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کمزوروں کو طاقتوروں پر غلبہ عطا کر دیتا ہے اس لیے ہمارا شاعر کہتا ہے کہ ؎
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
اور
وہ نبوّت ہے مسلماں کے لیے برگِ حِشیش
جس نبوّت میں نہیں قُوّت و شوکت کا پیام
آج جبکہ کفر ہر سو غالب ہے، مغرب کی الحادی فکر وتہذیب بحروبر پرچھائی ہوئی ہے، مسلمان کمزور اور ناتواں ہیں۔ کیا دین اور حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شکست تسلیم کرکے ڈھے جائیں اور مغرب کی طاقت کے سامنے سرنگوں رہیں۔ یا دینی حمیت اور عزیمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی غلط فکرکی بالادستی کو چیلنج کریں اور اس کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت اور برتری کو واشگاف الفاظ میں بیان کریں بلکہ جہاں تک ممکن ہو کفر کی طاقت کو، کمزور ہونے کے باوجود، چیلنج کریں۔ چنانچہ افغان مہاجرین نے یہ کیا اور بیس سال تک قربانیاں دینے کے بعد طاقتورامریکہ اور یورپ کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اگر احمد جاوید صاحب کے فلسفے پر عمل کیا جاتا تو طاقت کا توازن تو موجود ہی نہیں تھا لہٰذا افغان مجاہدین کو مزاحمت کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔
احمد جاوید صاحب اور اس راقم آثم کے اسلوب میں یہی فرق ہے۔ وہ مغرب پر تنقید کرتے ہیں تو بقول شخصے پتا نہیں چلتا کہ وہ مغرب کی تعریف کررہے ہیں یا اس پر تنقید۔ راقم، اپنی صلاحیت اور علم کے مطابق، دھڑلے سے مغرب پر نقد کرتا ہے، اسے کفر اورگمراہی قرار دیتا ہے اور مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے کہ کفر کی چکا چوند سے مرعوب ومتاثر نہ ہوں ،اس کی پیروی نہ کریں بلکہ اسے رد کردیں، ٹھکرا دیں کہ اس کا نتیجہ دنیا میں ناکامی اورآخرت میں جہنم کی آگ ہے۔ انہیں چاہیے کہ اسلام کی طرف لوٹیں، اس کے سنہری اصولوں پر عمل کریں اور جو دنیا وآخرت میں کامیابی کا یقینی لائحہ عمل ہے۔
میں چونکہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے لکھتا ہوں لہٰذا سادہ اور سلیس اردو لکھتا ہوں، تسہیل کو پیش نظر رکھتا ہوں۔ اس پر بعض اہل علم اعتراض کرتے ہیں کہ یہ انتہائی سادہ (Over-Simplified) اور صحافیانہ طرز تعبیر ہے۔ یہ علمی ، دقیق اور فلسفیانہ اسلوب نہیں ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔ اسی لیے مَیں ان اہل علم سے کہتا ہوں کہ آپ میرے اسلوب کو چھوڑیں، آپ مغربی فکروتہذیب کے خلاف ،علمی ،دقیق اور فلسفیانہ انداز میں لکھیں اور ضرور لکھیں۔ مَیں عام لوگوں کے لیے لکھتا ہو ں آپ اہل علم اور سکالرز کے لیے لکھیں بلکہ بہتر ہوگا کہ انگریزی میں لکھیں تا کہ مغرب اور مغرب زدہ ا یلیٹ اس سے استفادہ کرسکے۔
میری رائے میں مغرب کے سامنے معذرت خواہانہ انداز میں اسلام پیش کرنے یا کچھ مغرب کی تعریف کرنے اور کچھ اسلام کی مدح کرنے اوراسے تقاضائے حکمت قرار دینے کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ دو ٹوک انداز میں مغرب کی الحادی فکروتہذیب کو رد کیا جائے اور اس کے کفر اورگمراہی کو مسلمان عامۃ الناس پر واضح کیاجائے تا کہ وہ اس کی مرعوبیت کے سحر سے نکلیں ، اس کی پیروی پر لعنت بھیجیں اور اسلام کی طرف لوٹیں۔ میرے نزدیک اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ اور چیلنج مغرب کی الحادی فکروتہذیب ہے، اسے رد کرنا عین شرعی تقاضا ہے اور اس کے مقابلے میں اسلام کی برتری ثابت کرنا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور خدمت ہے۔ مغرب کی الحادی فکروتہذیب کے بارے میں نرمی، مداہنت اور نیمے دروںنیمے بروں کی پالیسی صحیح نہیں ہے بلکہ خلافِ حکمت ہے، خلاف منشائے دین ہے۔ دینی مصلحت اسی میں ہے کہ مسلمان مغربی فکر وتہذیب کے چنگل سے نکلیں، اسےرد کریں اور اسلام کی طرف لوٹیں۔
یہی وجہ ہے کہ راقم متجددین کی علی الاعلان مذمت کرتا ہے اور ان کی مذمت کرنا تقاضائے دین سمجھتا ہے کیونکہ یہ فکری مفلسین کا وہ ٹولا ہے جو مغربی تہذیب کے کفر کو اسلامی نقطۂ نظر سے قابل قبول گردانتا ہے اور مغرب کی الحادی فکروتہذیب کو مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنا کر پیش کرتا ہے اور یوں مسلمانوں کو اسلام اور مسلم دشمن مغرب کی فکری اور عملی غلامی کا درس دیتا ہے۔ عام مسلمانوں کو ان کے دجل وفریب سے بچانا ضروری ہے لہٰذا ان کی مخالفت بھی دینی تقاضا ہے اور دین کی مصلحت ہی اس کی مقتضی ہے کہ ان کارد کیا جائے۔
ساتھیوں کے ساتھ۳ا سال تک کفار کا جبر