اقبال کا فلسفۂ تعلیم

اقبال کا فلسفۂ تعلیم(آخری قسط)

منطقی طور پر اقبال کے فلسفۂ تعلیم میں دوسر ے عناصر بھی شامل ہیں ۔ان عناصر میں سخت کوشی، استغنا،قید ِمقام سے آزادی ،خود گری اور خود نگری اہم ترہیں ۔سخت کوشی کے متعلق ان کے اشعار جابجاملتے ہیں اور جہاں بھی وہ نوجوانوں کاذکر کرتے ہیں ،ان کے پیش نظروہ نوجوان ہوتے ہیں جو سخت کوش ہیں؎
قوم را سرمایہ اے صاحب نظر
نیست از نقد و قماش و مال و زر

مالِ او فرزند ہائے تندرست
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست
لیکن افسوس کہ وہ اپنی قوم کے نوجوانوں میں انتہائی تن آسانی اورآرام پسندی دیکھتے ہیں اوران کی اس حالت پر جابجا آنسو بہاتے ہیں؎
ایں مسلماں زادئہ روشن دماغ
ظلمت آبادِ ضمیرش بے چراغ

در جوانی نرم و نازک از حریر
آرزو در سینۂ او زودِ میر
تن آسانی کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ انسان کے دل میں آرزومرجاتی ہے۔ اورجس کے دل میں آرزو مرجائے وہ کبھی زندہ دل اور باحوصلہ نہیں ہو سکتا ۔تن آسانوںکے لیے زندگی ہمیشہ ایک تلخابہ رہتی ہے اور اس تلخابے کو انگبیں میں بدلنے کا نسخہ محض سخت کوشی ہے؎
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے جس فلسفۂ خودی کی تبلیغ کی ہے ،وہ سخت کوشی ہی کی ایک ارفع صورت کا نام ہے۔ جب تک کوئی شخص سخت کوش نہ ہوگا وہ اپنی خودی کی نگہبانی نہ کر سکے گا اور انفرادی خودی کی حفاظت نہ ہو سکے تو اجتماعی یا قومی خودی کی حفاظت بھی ناممکن ہے؎
غافل از حفظِ خودی یک دم مشو
ریزئہ الماس شو، شبنم مشو

پختہ فطرت صورتِ کہسار باش
حامل صد ابرِ دریا بار باش
سخت کوشی اور حفظ خودی سے قوموں میں قوت اورحصانت پیدا ہوتی ہے ۔دنیا میں جو ملت بھی سخت کوش اور اپنی خودی کی نگہبان ہوگی،وہی پائیداری اور ثبات حاصل کرے گی اور جو ملت تن آسان اور آرام پسند ہوگی ،وہ نیست ونابود ہو جائے گی۔سخت کوشی ہی سے انسان میں استغناکا جوہر پیدا ہوتا ہے اور استغناءکا جوہر اسے سربلند کرتا اورامتیاز عطا کرتاہے۔ اس استغناء کی تعریف اقبال نے ان الفاظ میں کی ہے؎
ز علم چارہ سازے بے گدازے
بسے خوشتر نگاہِ پاک بازے

نکوتر از نگاہِ پاک بازے
ولے از ہر دو عالم بے نیازے
شاعری میں اقبال نے شاہین کا جو نیا سمبل تراشا ہے وہ بھی حقیقتاً چند اعلیٰ اور ارفع صفات کے اظہار کے لیے ہے۔ شاہین جرأت مند اور سخت کوش ہے۔ اس کی نگاہ ہمیشہ بلندیوں پر رہتی ہے وہ آزاد رو ہے۔ اسیر مقام نہیں ،پابند خانہ ودانہ نہیں ،خوددار ہے مردہ شکار پر نہیں جھپٹتا۔ اس کے اندر بے نیازی اور استغناء کی شان پائی جاتی ہے۔اقبال جب اپنی ملت کے نوجوانوں کو شاہین بچے کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو اس سے اس کی مراد یہی ہوتی ہے کہ ان نوجوانوں میں وہ تمام صفات پیدا ہوجائیں جو شاہینوں میں پائی جاتی ہیں۔حیوانات میں جتنی صفات ہوتی ہیں وہ عام طور پر جبلی ہوتی ہیں لیکن انسان ان کا اکتساب کرتاہے۔اکتساب صفات کے لیے واضح اور ٹھوس خطوط پر تعلیم وتربیت کی

ہیں وہاں شہباز بھی تعلیم وتربیت نہ ہونے سے ممولوں سے ڈرنے لگتے ہیں ایسے ہی غلط طورپر تربیت پائے ہوئے نوجوانوں کے لیے اقبال نے کہا ہے ؎
تنش از سایہ بال تدروے لرزہ می گیرد
چوں شاہین زادئہ اندر قفس بادانہ می سازد
اس تمام گفتگوسے ا یک نہایت اہم سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے جس کا مختصر سا جواب دیئے بغیر یہ گفتگو مکمل نہیں ہو سکتی۔ وہ سوال یہ کہ اقبال کے نظریۂ تعلیم کا منتہائے مقصود کیا ہے؟ یعنی وہ کس قسم کے انسان کی تخلیق کا آرزومندہے۔ اس سوال کا نہایت مختصر اور سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ وہ مرد مومن کا آرزو مند ہے جس کی تعریف اس نے اپنے ان چند اشعار میں کی ہے؎
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن، نئی شان
گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان،قیامت میں بھی میزان

جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
یہ اقبال کے انسان کامل کی تصویر ہے۔ وہ اپنے انسان کامل میں چاربڑی صفات دیکھنا چاہتا ہے یعنی قہاری، غفاری، قدوسی اور جبروت۔ یہ چاروں صفات ، صفات الٰہیہ میں سے ہیں گویا ایک مکمل انسان ایک مختصر اورمحدود پیمانے پرالوہی صفات کا مظہر ہوتا ہے ۔ اس میں اورخدا میں فرق یہی ہے کہ خدا کی ذات میں یہ صفات لامحدود دیت کا جامہ پہنے ہوتی ہیں اور انسان کی ذات میں محدود ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ذات خداوندی میں کئی اور صفات ایسی ہیں جو اس کی ذات کےلیے مخصوص ہیں۔ انسان ان صفات کا اکتساب کرنے سے معذور ہے۔ پھر چونکہ خدا قائم بالذات اور قدیم ہےاس لیے اس کی ذات میں جو صفات ہیں، وہ قدیم اور لایزال ہیں۔ انسان چونکہ حادث ہے اس لیے اس کی ذات میں جو چند الوہی صفات پیدا ہوں گی وہ بھی حادث اور عارضی ہوں گی۔
یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ دنیا کے اکثر بڑے فلسفیوں نے انسانِ کامل کا خواب دیکھاہے اور اپنی اپنی دانست کے مطابق اسے مختلف نام دیئے ہیں۔یورپ کے ایک مشہور مفکرنطشے نے بھی انسان کامل کا ایک تصور پیش کیا ہے جسے وہ فوق البشر(Super Man) کے نام سے یاد کرتاہے۔ بعض نقادوں نے جن میں سے زیادہ تر مغرب سے تعلق رکھتے ہیں یہ کہا ہے کہ اقبال نے اپنے انسان کامل کا تصورنطشےسے مستعارلیا ہے لیکن انہیں یہ غلط فہمی اس لیے ہوئی ہے کہ مشرق کے فلسفیوں کے افکاران تک نہیں پہنچے۔اقبال اور نطشے کے انسان کامل میں ایک بنیادی فرق ہے ۔نطشے کے خیال کے مطابق انسان کامل کا، جسے وہ فوق البشر کہتا ہے ،ظہورجدلیاتی عمل کاایک لازمی نتیجہ ہے۔ گویا وہ زمان ومکان کی انصرافی قوتوںکی پیداوار ہوگا۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ فوق البشرکا ظہور اس وقت تک ممکن نہیں جب تک زمان ومکان کی انصرافی قوتیں نقطۂ کمال کو نہ پہنچ جائیں۔ اقبال کا انسان کامل زمانی اورمکانی قوتوں کی پیداوارنہیں اورنہ اس کا ظہور کسی خاص وقت یا بعض خاص حالات کا مرہون منت ہے بلکہ زمان ومکان خود اس کے پابند ہیں۔ اس کا ظہور ہر دور میں ممکن ہے بلکہ کامل ترین انسان کا ظہور تو بھی ہو چکا ۔اب جو کامل انسان آئے گا وہ اس کامل ترین انسان کے نقش قدم پر چلے گا۔ نطشے کافوق البشر مادی طاقتوں اورقوتوں کا مظہر ہوگا۔ اس کی قوتیں بے پناہ اورلامحدود ہوں گی ان پر کوئی تحدید نہ ہوگی۔ اقبال کاانسانِ کامل روحانی اور مادی قوتوں کے لطیف امتزاج کامظہر ہوگااور روحانی قوتوں کی باگ اس کی مادی قوتوں کو اعتدال اورتوازن کے رستے سے نہ ہٹنے دے گی۔نطشے کافوق البشر انسانوں کے لیےباعث رحمت بھی ہو سکتا ہے اور باعث بربادی وہلاکت بھی کیونکہ وہ اپنے سے برترکسی قوت کے سامنے جواب دہ نہیں۔اقبال کا انسانِ کامل محض رحمت ہی رحمت ہے کیونکہ اسے ہروقت یہ احساس رہتا ہے کہ وہ اپنے ہرفعل اور ہر عمل کے لیے ایک برترقوت کے سامنے جواب دہ ہے اوریہ برترقوت دانا،بینا اوردلوں کا حال جاننے والی ہے۔ (’’اقبالیات‘‘ ۹۰-۱۹۸۹ء )

ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ جہاں ممولے تربیت اور تعلیم سے شہبازبن سکتے