انقلابی جماعت پہلے تعلیمی نظام کیوں تبدیل کرتی ہے ؟
سوسائٹی کی تین بڑی بنیادیں ہوتی ہیں :
۱۔فکر و فلسفہ ۲۔ اس فکر و فلسفہ پر قائم سیاسی نظام ۳۔اس فکر و فلسفہ پر قائم معاشی نظام
اگر ہم ان تینوں بنیادوں پر اپنی سوسائٹی کا جائزہ لیں تو ہمارا فکر و فلسفہ سرمایہ داری و جاگیرداری( Capitalism Feudalism )ہے اور معاشی نظام ایڈم سمتھ کی کتابThe ‘ Wealth of Nations’ کے معاشی سودی اصولوں پر مبنی ہے جس کو سرمایہ دار طبقے کی بائبل کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سیاسی نظام جھوٹ پر مبنی ہے جو میکاؤلی کے Political school of thought پر ترتیب دیا گیا ہے یعنی وہ اپنی کتاب’ The Prince ‘میں لکھتا ہے کہ مذہب اور جھوٹ کو اک ٹول کے طور پر استعمال کرو اور لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھو اور آج کل ہماری سیاست میں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ ہمارا تعلیمی نظام سرمایہ داری اور جاگیرداری کے فلسفہ کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے یعنی تعلیمی نظام کے ذریعے جاگیرداری کے فلسفہ کو تحفظ دیا گیا ہے۔ ہمارا معاشی نظام طبقات پیدا کرتا ہے اس لیے تعلیمی نظام بھی طبقاتی ہے ۔ ایچی سن ، ایڈورڈز ، بیکن ہاؤس وغیرہ ملکی نظام کو چلانے کے لیے ایڈمنسٹریٹر پیدا کرتا ہے جو Upper class اور Elite سے ہوتے ہیں اور غریب لوگ ایسے سکولوں میں داخلے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ پھر Middle Class کیلئے پرائیویٹ سکول آ جاتے ہیں جو مڈل لیول مینجمنٹ پیدا کرتے ہیں اور اسی طرح گورنمنٹ کے سکول آ جاتے ہیں جو زیادہ تر کلرک کی ذہنیت پیدا کرتے ہیں۔ جو اس لیے پڑھتے ہیں کہ انہیں اچھی نوکری مل جائے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ Upper Class کے لوگ Top Bureaucracy میں اور ملک کے پولیٹکل لیڈرز بن جاتے ہیں اور Middle Class سے ہیڈ کلرک اور Lower Middle Class سے کلرک نکلتے ہیں ۔
پھر اسی تعلیمی نظام میں زیادہ تر Lower Class اور Lower Middle Class سے لوگ مذہبی تعلیم کیلئے مدارس میں چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ہمارا تعلیمی نظام کئی بورڈز میں تقسیم کر دیتا ہےجن کے فارغ التحصیل علماء کوفروعی مسائل کو اصل مسئلہ بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ لڑایا جاتا ہے جس سے معاشرے میں فرقہ واریت پیدا کی جاتی ہے ۔ اور جب نظام کو ضرورت پڑتی ہے ان مدارس کے بچوں کو جہاد اور جلسے جلوسوں میں استعمال کرتا ہے۔ ان بچوں کے لیے سرکاری نوکری کے بہت کم chance ہوتے ہیں تو یہ زیادہ تر مسجد میں نماز پڑھا کر ، جنازے پڑھا کر مدارس چلا کر اپنے مالی معاملات چلاتے ہیں۔ یہ سارا تعلیمی نظام ایک سیکرٹری تعلیم چلاتا ہے۔
اب آپ خود سوچیں جب مختلف تعلیمی اداروں سے یہ لوگ نکلیں گے تو معاشرے میں ذہنی اور فکری انتشار پیدا ہو گا جو نظام جان بوجھ کر پیدا کر رہا ہے کیونکہ نظام کی بقاء اسی فکری انتشار میں ہے ۔ لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہمیں اک ایسی مترجم جماعت چاہیے جو ہمارے اور عوام کے درمیان رابطے کے فرائض سرانجام دے وہ Upper Class ہے جن کے لیے ایڈورڈز اور ایچی سن جیسے ادارے بنائے گے جن کے ذریعے برطانیہ آج بھی ہم پر حکمران ہے۔ اور دوسری بات اس نے یہ کی تھی کہ ہمارے تعلیمی نظام سے یہ لوگ نسل سے تو ہندوستانی ہوں گے لیکن ذہنی طور پر ہمیشہ ہمارے غلام رہیں گے اور آج ہم دیکھ لیں کہ ہمارا قبلہ امریکہ ویورپ ہے۔ سارے طبقاتی تعلیمی سلیبس میں نظاموں کا شعور نہیں دیا جاتا، چاہے وہ ایچی سن میں پڑھ رہا ہو یا دینی مدرسے اور گورنمنٹ سکول میں پڑھ رہا ہو ۔ اس تعلیمی نظام میں معشیت ایڈم سمتھ کی پڑھائی جاتی ہے اور سیاست میکاؤلی کی اور تاریخ ان جاگیرداروں کی پڑھائی جاتی ہے جنہوں نے انگریز کی برصغیر میں مدد کی ۔ا س تعلیمی نظام میں پڑھنے والے کی اتنی ہی Capacity Building کی جاتی ہے جس سے وہ نظام کا پرزہ بن کر اس کو چلا سکے۔ اس سے آگے وہ سوچنے کے قابل ہی نہ ہو۔
اب جب انقلابی جماعت آتی ہے تو اس غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے والے تعلیمی نظام کو نئے سرے سے تعمیر کرتی ہے جس میں مذہبی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم کو ختم کرکے ایک جاندار نظام تعلیم دیتی ہے جس میں ملک میں رہنے والے سارے لوگوں کو برابر تعلیم کا موقع دیا جاتا ہے ، تعلیمی سلیبس کو یکساں بنا کر طبقاتی انتشار کو ختم کیا جاتا ہے ۔اللہ کی ودیعت کردہ صلاحیتیں ، حبّ جاہ ، مادہ پرستی ایجاد و تقلید اور رائے کلی یعنی تمام انسانیت کی بہتری کی سوچ کو نئے نظام تعلیم سے پروان چڑھایا جاتا ہے اور فکری انتشار پیدا کرنے کے بجائے فکری وحدت پیدا کی جاتی ہے تاکہ سوسائٹی کا ارتقاء جاری رہے ۔