ٹین ایجر اولاد کی تربیت کیسے کریں؟
وہ خود سر ہیں، rude ہیں، آپ کو اہمیت نہیں دیتے…. دیر تک سوتے ہیں، باہر پھرتے ہیں، آپس میں الجھتے ہیں۔ آپ کی بجائے دوستوں کو اہمیت دیتے ہیں، ایسے جتاتے ہیں جیسے آپ سے زیادہ جانتے ہوں۔
ایسا نہیں ہے۔ ان کے رویے کو سمجھنے میں تین پہلو ہمیشہ یاد رکھیں:
۱۔ وہ ٹرانزیشن فیز میں ہیں۔ خود چلنا، دنیا کو سمجھنا اور برتنا ایک نارمل انسانی ڈویلپمنٹ ہے جس کا نہ ہونا زیادہ پریشانی کی بات ہے۔
۲۔ دماغ کے دو اہم حصے ہوتے ہیں۔ ایک جذباتی ردعمل دینے والا اور دوسرا سوچنے، کنٹرول کرنے والا۔ اس دوسرے حصے کی ڈویلپمنٹ سب سے آخر میں مکمل ہوتی ہے۔ اس لیے نوجوان خطروں سے کھیلتے ہیں، انجام کی پرواہ نہیں کرتے ،فوری ریسپانس اور کامیابی چاہتے ہیں، فائدہ بھی فوری چاہتے ہیں۔ ان کو موڈ سوئنگز ہوسکتے ہیں۔
اس لیے یاد رکھیے کہ ان کے بہت سے رویے آپ کو چڑانے یا آپ کی نافرمانی کے لیے نہیں، ان کی دماغی ڈویلپمنٹ کے پراسس کا حصہ ہیں ۔
۳۔ اندر سے وہ اب بھی بچے ہیں ۔ ان کو آپ کی محبت، پیار اور آپ کا سہارا چاہیے۔ لڑکے ماؤں سے کیوں قریب ہوجاتے ہیں ؟ کیونکہ وہ جتنے بھی بڑے ہوجائیں، مائیں ان کو بچوں والی توجہ دیتی ہیں۔ چمکارتی ہیں، پیار کرتی ہیں، کھانے کا پوچھتی ہیں، محبت کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کو یہ نہیں لگتا کہ یہ اتنا بڑا مرد میرے اختیار کو چیلنج کررہا ہے ۔
باپ عموما اس مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اور مائیں ایسا پیارا رویہ بیٹیوں کے ساتھ نہیں رکھ پاتیں۔ ڈانٹتی ہیں، کام کرو، ذمہ داری اٹھانا سیکھو، کھانا خود نکالو، یہ وہ کیوں کیا ۔ نتیجتاً لڑکیاں اس عمر میں ماؤں سے خفا رہتی ہیں۔
گویا ماں بیٹیوں کے معاملے میں اور باپ بیٹوں کے معاملے میں اس خوف اور اضطراب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ ہمارے اختیار کو چیلنج کر کے ہمارے مقابل آنا چاہ رہے ہیں ۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔
حل کیا ہے ؟
اپنے آپ کو بتائیے وہ آپ کے بچے ہیں، دشمن نہیں۔
انہیں اب بھی آپ سے محبت اور توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
پیارے نبی کریم صلی اللہ وسلم اپنی پیاری صاحبزادی کا کھڑے ہوکر استقبال کرتے تھے، ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہؓ سے خفا ہوکر مسجد نبوی میں جاکر لیٹ گئے تو آنحضرت ﷺ پیار سے ان کے بدن سے مٹی جھاڑتے، ان کو پیار سے مناتے ہیں۔
آپ بھی ان سے محبت اور لگاؤ کا اظہار کیجیے۔ لگاؤ کے اظہار میں انا کو نہ آنے دیں۔ اس کو اتنا نارمل بنائیے کہ اظہار کرنا ہو تو جھجکنا اور سوچنا نہ پڑے۔
ان کے اچھے کام کی تعریف کیجیے ۔
غلطی پر ضرور متنبہ کیجیے۔ ڈسپلن بھی سکھائیے مگر کسی سخت گیر وارڈن کی طرح نہیں ۔
غصہ کے وقت خوب غصہ کیجیے۔ مگر یہ فیز ہر وقت نہ رہے اور جلدی جلدی نہ آئے۔ کبھی کبھی والا غصہ بچے اچھے سے میفیج کرلیتے ہیں۔
بچوں سے باتیں کریں۔ ان کی سنیں، ان کو چھیڑیں، مذاق کریں، ان کی دلچسپی کی بات پوچھیں۔ وہ بتائیں تو تعریف کریں۔
آپ اپنے گھر میں خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے، ان شاءاللہ۔