اسلام کا تصورِ علم
دینی علمیت اور میڈیا کی تخلیق کردہ علمیت میں بنیادی فرق ہے
دینی علمیت ’لفظ مرکز‘ (Word Centric)اور’ذات مرکز ‘(Personal) ہوتی ہے۔ لفظ اس وقت بامعنی ہوتا ہے جب وہ کسی ذات سے منسلک ہو۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ ذات خداوندی ذات ِ پیغمبر سے مخاطب ہوئی۔ وحی الٰہی قلب پیغمبر پر جبریلِ امین کے ذریعے نازل کی گئی اور پہلی وحی ’اقراء باسم ربک‘ تھی یعنی وحی بھی لفظ مرکز تھی ۔رسول کریمﷺ کو الفاظ کی تلاوت کا حکم دیا گیا یعنی الفاظ کی قراءت اوران کا فہم حاصل کرنا تلاوت کی اصطلاح میں مضمر ہے۔ یہ عمل بھی لفظ مرکز ہے اورذات مرکز ہے۔ ذات الٰہی جبریلِ امین کے ذریعے ذات پیغمبر کو وحی الٰہی کی ترسیل کر رہی ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ دینی علمیت عکس مرکز، تخیل مرکز(Image Centric) ،تخلیقی تخیل مرکز، غیر ذات مرکز(Impersonal)، تصویر مرکز (Photocenrtic)، اشیاء مرکز (Things Centric) نہیں ہوتی ۔اللہ کا کلام اس کے بندوں تک ذات رسالت مآب ﷺ کے ذریعے پہنچایاجاتاہے۔ اور ذات رسالت مآب خاتم المعصومین فتح مکہ کے بعد دنیا کے آٹھ بادشاہوں کو خط لکھتے ہیں تو صرف خط ارسال نہیں کرتے بلکہ ہر خط کے ساتھ ایک صحابی کو منتخب کرکے وہ خط بھیجتے ہیں تاکہ صرف پیغام ہی بادشاہ کو نہ پہنچے بلکہ پیغمبر کی بات،ذات ،روحانیت کا عکس اور نقش بھی آپ کے منتخب کردہ صحابی کے ذریعے بادشاہ تک منتقل ہو۔ یعنی صرف پیغام نہیں،پیغام پہنچانے والے کی ذات اور اس ذاتِ مکرم ومحترم کی نمائندگی کرنے والی ذات بھی پیغام کی طرح اہم ہے۔یعنی صرف پیغام نہیں پیغام کا ذریعہ بھی اہم ہوتا ہے۔
انہی معنوں میں دینی علمیت لفظ مرکز اورذات مرکز ہے۔رسالت مآب ﷺ پروحی نازل ہوئی اور آپ عجلت میں اسے پڑھنے لگے تو وحی نازل ہوئی کہ اے پیغمبر! آپ جلدی نہ کریں اس وحی کو پڑھوانا اور سمجھانا ہمارے ذمہ ہے:
﴿لَا تُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۱۶ۭ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۱۷ۚۖ ﴾[القیامہ۷۵: ۱۶،۱۷]
حضرت موسیٰؑ کو تورات تختیوں پر لکھ کردی گئی لیکن یہ کتاب ذات پیغمبر کے ذریعے امت کو عطا کی گئی کہ علم کاوسیلہ ذات پیغمبر ہے۔ اس کے بغیر علم کا فہم اور علم کی حقیقت منتقل نہیں ہو سکتی۔
تلاوتِ وحی کا مطلب بھی اسلامی علمیت میں قراءت سے بالکل مختلف ہے۔ قراء ت عام کتابوں کی جاتی ہے، تلاوت وحی الٰہی کے پڑھے جانے سے متعلق ہے اور اسی اصطلاح تلاوت کا مطلب صرف پڑھنا نہیں بلکہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے پڑھتے ہوئے اس پر غور وفکر کرنا اور اس کی پیروی کرنے کامفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ یعنی تلاوت کا مطلب یہ ہوا کہ صرف الفاظ پڑھے نہ جائیں بلکہ غوروفکر بھی کیا جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔ قرآن نے رسولوں کی آمد کے چار مقاصد بتائے:۱۔تلاوتِ آیات یعنی کثرت ذکر۔۲۔ تعلیم الکتاب۔ ۳۔ تعلیم حکمت۔
۴۔ تزکیہ نفس
﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۱۲۹ۧ ﴾[البقرہ۲: ۱۲۹]
’’اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اورانہیں خوب ستھرا فرما دے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔‘‘
ذکر الٰہی کے بارے میں قرآن بتاتا ہے:
* ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۲ۚۖ﴾[الانفال۸:۲]
’’ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے ان کے دل ڈرجائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے * ﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۴۱ۙ﴾[الاحزاب۳۳:۴۱]
’’اے ایمان والو اللہ کو بہت یاد کرو‘‘
* ﴿فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۱۵۲ۧ ﴾[البقرہ۲: ۱۵۲]
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
* ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ۱۵ۚ ﴾ [الانفال۸: ۱۵]
’’اے ایمان والو! جب (دشمن کی ) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرواور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تا کہ تم فلاح پا جائو۔‘‘
* ﴿فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْكُرُوا اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِكُمْ۰ۚ فَاِذَا اطْمَاْنَـنْتُمْ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ۰ۚ اِنَّ الصَّلٰوۃَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۱۰۳ ﴾ [النساء:۱۰۳]
’’پھراے (مسلمانو!)جب تم نمازادا کرچکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوئوں پر (لیٹے ہرحال میں )یاد کرتے رہو۔‘‘
* ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِكْرِ اللہِ۰ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۲۸ۭ ﴾[الرعد۱۳:۲۸]
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں ،جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘
* ﴿وَلَذِكْرُ اللہِ اَكْبَرُ۰ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۴۵﴾[العنکبوت۲۹: ۴۵]
’’اورواقعی اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے،اور اللہ ان (کاموں)کو جانتاہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
* ﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۴۱ۙ وَّسَبِّحُــوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۴۲ ﴾ [الاحزاب۳۳: ۴۲]
’’ا ے ایمان والو!تم اللہ کا کثرت سے ذکرکیا کرو،اور صبح وشام اس کی تسبیح کیا کرو۔‘‘
وہی ہے جو تم پررحمت بھیجتا ہے اوراس کے فرشتے بھی تا کہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے، اور وہ ایمان والوں پر نہایت رحم کرنےوالاہے۔صحابہ کرام ایک ماہ، پندر ہ دن، ایک ہفتہ، دو دن میں بھی قرآن ختم فرما دیتے تھے یہ کثرت ذکر ہے۔ رسالت مآب ﷺ نے صحابہ کے شوق تلاوت کو دیکھتے ہوئے ہدایت کی کہ قرآن کو تین دن سے پہلے ختم نہ کرو۔
’’لم یفقہ من قرء القرآن فی اقل من ثلاثۃ‘‘{ FR 11776 }
’’جس نے قرآن تین دن سے کم میں ختم کیاتو اس نے اسے سمجھنے کا حق ادا نہیں کیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے قلب پیغمبر پر وحی الٰہی حضرت جبرئیل امین کے ذریعے نازل کی۔ یہ وحی بھی الفاظ کی صورت میں تھی جبرئیل امین نے آپ کو الفاظ بھی یادکرائے اور ان کا فہم بھی بتایا۔ یہ تمام عمل لفظ مرکز اور ذات مرکز ہے ذات رسالت مآب ﷺ کو ایک فرشتے کے ذریعے علم عطا کیا جارہا تھا اور فرشتے کی ذات کو علم ذات الٰہی کے ذریعے عطا ہو رہا تھا۔
تلاوت کتاب صرف الفاظ کی گردش اور ہونٹوں کی لرزش کا نام نہیں یہ ایک علمی، ایمانی اعتقادی اور روحانی سرگرمی ہے۔ قرآن حکیم میں باربارکثرت ذکر کا حکم ہے ۔اللہ اور رسول باربارکثرت تلاوت کا حکم دیتے ہیں۔ صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین، اسلاف کثرت تلاوت کو زندگی کامعمول بنالیتے ہیں۔مسلمان اذان سنتا ہے تو اذان میں چھ مرتبہ اللہ اکبر کی تکرارہوتی ہے۔ تکبیر تحریمہ پڑھی جاتی ہے تو تکبیر پڑھنے والا چھ مرتبہ اللہ اکبر کہتاہے ۔یہ تمام اعمال ہمیں بتاتے ہیں کہ تلاوت ، تکرار،باربارذکر….دین کو مطلوب اعمال ہیں قراءت اورتلاوت کو حقیر سمجھنانادانوں کا عمل ہے۔ یہ عمل لفظ مرکز اورذات مرکزہے ۔فرشتے اس عمل کی گواہی دے رہے ہیں اورذات الٰہی اس عمل کا اجر عطا کررہی ہے۔
بچہ پیدا ہوتاہے تو اس کے کان میں اذان کے الفاظ داخل کیے جاتے ہیں۔ اس کا نام رکھ کر اسے پکارا جاتا ہے ۔بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی اجتماعیت موجود ہوتی ہے ۔اس اجتماعیت کی زبان بھی بچے کوورثے میں ملتی ہے۔ زبان لفظ مرکز ہوتی ہے۔ علمیت ،تہذیب ۔تاریخ۔ مذہب، رب ہی پر بھروسہ کریں۔‘‘
سب بچے کو لفظ اورذات سے منتقل ہو رہے ہیں حتیٰ کہ خوراک ماں کا دودھ بھی بچے کی ذات کو ماں منتقل کررہی ہے۔ محبت، شفقت اورمودت بھی ماں کی ذات سے منتقل ہو رہی ہے۔
دنیا کی تمام روایتی تہذیبیں جو خدا مرکز یا فطرت مرکز تھیں ان میں علم کی روایت زبانی (oral)تھی ۔علم لفظ، زبان،ذات سے ذات کو منتقل ہوتاتھا۔ جو علم زبانی روایت سے منتقل ہوتا ہے وہ یاد رہتا ہے۔ اسی لیے بچے کو بڑھاپے میں ماں کی بچپن کی سنائی ہوئی لوری یاد ہوتی ہے۔ دادا، نانا، نانی کی سنائی ہوئی کہانی یاد ہوتی ہے کتاب سے پڑھی کہانی یاد نہیں ہوتی۔
تمام مذاہبِ عالم میں اور اسلام میں علم کی روایت تھی’سمعناواطعنا‘ کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی حتیٰ کہ عالم کفر میں بھی یہی روایت انکارکی صورت میںتھی کہ’سمعنا وعصینا‘ کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔
جامعہ نظامیہ بغدادطلباء کو اسناد جاری نہیں کرتا تھا۔ سند استاد،عالم، شیخ الحدیث دیتے تھے۔ ادارہ غیر اہم، استاد کی ذات اہم ترین تھی ۔حدیث کی روایت آج بھی زبانی ہے۔ شیخ الحدیث حدیث کی اجازت دیتے ہیں تو سلسلۃ الذھب بتاتے ہیں کہ میں نے فلاں سے سنی اورانہوں نے فلاں سے سنی۔ یہ زبانی روایت ہے۔
قرآن نے باربار ذکرکاحکم دیا ہے۔ اللہ کے بندے اٹھتے بیٹھتے لیٹتے سوتے ہر وقت ذکر کرتے ہیں۔ذکر بھی لفظ مرکز،ذات مرکز ہے۔ ذات الٰہی کی خوشنودی کے حصول کے لیے ذکرالٰہی کی روایت ہے۔ ذکراگرجہری نہ ہو خفی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس سے واقف ہے کیونکہ ذات سے ذات کا تعلق ہے۔
ہم جو اعمال کرتے ہیں ان کی نگرانی بھی فرشتوں کی ذاتِ کرتی ہے۔ فرشتے دو اوقات میں ہمارے ساتھ نہیں ہوتے ورنہ یہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ نامہ اعمال لکھتے ہیں۔ کراماً کاتبین ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔
انسانی ذہنوں کی نسبتوں کو لفظ سے جوڑنا اور لفظ کی ذات سے منسلک کرنا الہامی تہذیبوں کی روایت ہے۔ استاد کی اجازت اجراءعلم کی سند ہے ۔اسلامی علمیت میں سند کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ سند خود کسی ذات سے متعلق ہے۔ ’’الاسناد من الدین‘‘ علم جب ذات سے غیر متعلق ہو تو وہ غیر شخصی( Impersonal)ہو جاتا ہے۔ ذات غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ علم کا حامل ہونا ہی اہم نہیں علم ایک ذمہ دار ی( Responsibility)بھی ہے علم دینے والا اپنے علم کی ذمہ داری قبول کرتاہے۔ سوشل میڈیا کا علم عکسی اور اکثر غیر شخصی ہے لہٰذا علم کا ماخذ کون؟ ذمہ دار کون؟ کوئی نہیں غیر شخصی علم کااعتبار کیا ہے؟
سب بچے کو لفظ اورذات سے منتقل ہو رہے ہیں حتیٰ کہ خوراک ماں کا دودھ بھی بچے کی ذات کو ماں منتقل کررہی ہے۔ محبت، شفقت اورمودت بھی ماں کی ذات سے منتقل ہو رہی ہے۔
دنیا کی تمام روایتی تہذیبیں جو خدا مرکز یا فطرت مرکز تھیں ان میں علم کی روایت زبانی (oral)تھی ۔علم لفظ، زبان،ذات سے ذات کو منتقل ہوتاتھا۔ جو علم زبانی روایت سے منتقل ہوتا ہے وہ یاد رہتا ہے۔ اسی لیے بچے کو بڑھاپے میں ماں کی بچپن کی سنائی ہوئی لوری یاد ہوتی ہے۔ دادا، نانا، نانی کی سنائی ہوئی کہانی یاد ہوتی ہے کتاب سے پڑھی کہانی یاد نہیں ہوتی۔
تمام مذاہبِ عالم میں اور اسلام میں علم کی روایت تھی’سمعناواطعنا‘ کہ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی حتیٰ کہ عالم کفر میں بھی یہی روایت انکارکی صورت میںتھی کہ’سمعنا وعصینا‘ کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔
جامعہ نظامیہ بغدادطلباء کو اسناد جاری نہیں کرتا تھا۔ سند استاد،عالم، شیخ الحدیث دیتے تھے۔ ادارہ غیر اہم، استاد کی ذات اہم ترین تھی ۔حدیث کی روایت آج بھی زبانی ہے۔ شیخ الحدیث حدیث کی اجازت دیتے ہیں تو سلسلۃ الذھب بتاتے ہیں کہ میں نے فلاں سے سنی اورانہوں نے فلاں سے سنی۔ یہ زبانی روایت ہے۔
قرآن نے باربار ذکرکاحکم دیا ہے۔ اللہ کے بندے اٹھتے بیٹھتے لیٹتے سوتے ہر وقت ذکر کرتے ہیں۔ذکر بھی لفظ مرکز،ذات مرکز ہے۔ ذات الٰہی کی خوشنودی کے حصول کے لیے ذکرالٰہی کی روایت ہے۔ ذکراگرجہری نہ ہو خفی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس سے واقف ہے کیونکہ ذات سے ذات کا تعلق ہے۔
ہم جو اعمال کرتے ہیں ان کی نگرانی بھی فرشتوں کی ذاتِ کرتی ہے۔ فرشتے دو اوقات میں ہمارے ساتھ نہیں ہوتے ورنہ یہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ نامہ اعمال لکھتے ہیں۔ کراماً کاتبین ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔
انسانی ذہنوں کی نسبتوں کو لفظ سے جوڑنا اور لفظ کی ذات سے منسلک کرنا الہامی تہذیبوں کی روایت ہے۔ استاد کی اجازت اجراءعلم کی سند ہے ۔اسلامی علمیت میں سند کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ سند خود کسی ذات سے متعلق ہے۔ ’’الاسناد من الدین‘‘ علم جب ذات سے غیر متعلق ہو تو وہ غیر شخصی( Impersonal)ہو جاتا ہے۔ ذات غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ علم کا حامل ہونا ہی اہم نہیں علم ایک ذمہ دار ی( Responsibility)بھی ہے علم دینے والا اپنے علم کی ذمہ داری قبول کرتاہے۔ سوشل میڈیا کا علم عکسی اور اکثر غیر شخصی ہے لہٰذا علم کا ماخذ کون؟ ذمہ دار کون؟ کوئی نہیں غیر شخصی علم کااعتبار کیا ہے؟
آپ کسی مسجد ،خانقاہ ،زاویہ ،حلقے ،مجلس، محفل میں بیٹھ کر درس قرآن ،درست حدیث ،وعظ ونصیحت سنتے ہیں تو آپ کے دل پر پورے وجود پر اس کاایک خاص اثر ہوتا ہے۔ اس صحبت میں آپ کی تمام توجہ آپ کا پورا وجود اس ہستی کی بارگاہ میں موجود ہوتاہے۔ آپ صرف درس، وعظ ، نصیحت کی آوازہی نہیں سنتے اس وجود کی روحانیت بھی آپ کو براہ راست منتقل ہوتی ہے میڈیا کے ذریعے یہ ممکن نہیں۔ جب آپ اس مقام پر موجود ہوتے ہیں تو آپ کی توجہ اور ارتکاز اسی ذات گرامی کی طرف ہوتاہے لیکن جب اسی ہستی کا وہی درس، وعظ ،نصیحت.ٹیپ ریکارڈ سے ، ویڈیو سے onlineگھر پر یہ درس میڈیا کے ذریعے سنتے ہیں تو اس کو سنتے ہوئے آپ کبھی بیٹھ جاتے، کبھی لیٹ جاتے ،کبھی کھا پی لیتے ہیں، کبھی ادھرادھرچل پھرلیتے ہیں ٹیلی فون کی گھنٹی سن کر فون بھی اٹھا لیتے ہیں،گھر کی گھنٹی سن کر مہمان کا استقبال بھی کرلیتے ہیں۔آپ تمام کاموں کے ساتھ درس سننے کا نیک کام بھی کرتے ہیں۔ مقام بدلنے سے ذات سے تعلق منقطع ہونے سے یہ تمام مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے دعو ت وتبلیغ میں یہ مسائل موجود ہیں ذات سے تعلق باقی نہیں رہتا۔
ایک بہت بڑی دعوتی جماعت کا ہفتہ وار اجتماع ہوتا تھا توہزاروں لوگ شیخ کا خطاب سننے جمع ہوتے تھے۔ یہ خطاب آن لائن ہونے لگا تو سامعین کی تعداد بہت کم رہ گئی۔ شیخ کی ذات سے جو روحانی فیض حاضرین کو پہنچتا تھامیڈیا کے ذریعے وہ فیض ناظرین تک نہیں پہنچ سکتا۔
اسلامی علمیت میں ذات کی اس اہمیت کا مطلب یہ نہیں کہ اجتماعیت کا کوئی نظام ہی نہیں اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہے۔اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس پرعمل کے لیے اس کی شریعت پر عمل کی ضرورت ہے ۔اسلام دنیا کاواحد دین ہے جس کی شریعت پر کامل عمل کے لیے امارت، خلافت، سلطنت لازمی ہے۔ اسلام واقتدار لازم ہیں۔ ’’موکو ل علی السلطان‘‘ کی اصطلاح اس بات کا ثبوت ہے۔زکوٰ ۃ، جہاد،حدودوتعزیرات ،محاصل ،خراج وغیرہ کے لیے امارت لازم ہے لیکن اسلامی امارت کا اصل کام اس نفس ذات کی تعمیر، تشکیل ،تخلیق ،تربیت ہے جو عبدخالص ہو اوراللہ کے حضور پیش ہو کر کامیاب ہونے کے قابل ہو سکے۔ اسی لیے خروج کی بنیادی شرط کفر بواح کا ارتکاب ہے یعنی دین پر عمل کے راستے میں حکمران کا رکاوٹ بننا۔یہ اس کے قتل کا جواز بن جاتاہے۔ جدید ریاست کے خلاف خونی انقلاب صرف اس وقت برپا کیا جا سکتاہے جب لبرٹی، پراپرٹی، لائف کا تحفظ ناممکن ہو جائے اور حکمران کو جمہوری طریقے سے برطرف کرنا بھی ناممکن ہو جائے تب خونی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اسلامی علمیت اورمغربی علمیت کے تصور نفس ،تصور حقیقت اور تصور کائنات کا فرق واضح ہو جاتاہے۔
دینی علمیت، مذہبی ،الہامی علمیت میں ذات کی کس قدراہمیت ہے۔اس کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتاہے کہ مسجد جو صرف ایک عمارت ہے اس لیے مقدس ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ ذات الٰہی سے پتھروں کے ایک گھر کی نسبت نے اسے مقدس مقام عطا کردیا۔ یہی حال مدرسے کا ہے کہ یہ علم الٰہی اور علم نبوی سے متعلق ہے لہٰذا مدرسے کو بھی ذات الٰہی اور محبوب الٰہی کے ساتھ علمی تعلق کی بنیاد پر ایک اہم اورمقدس مقام مل گیا۔ مکہ اللہ کا شہرہے، اللہ سے منسوب ہے لہٰذا اسے حرم کا درجہ مل گیا۔ حرم کے آداب ،طریقے،سلیقے، قرینے اصول تمام دنیا سے مختلف ہیں کیوں کہ یہ سرزمین ذات الٰہی سے منسوب ہے۔ پتھروں کے ایک کمرے کو حرم کعبہ کہا گیا ہے۔ اسے وہ عظیم مقام اس لیے حاصل ہوا کہ کعبۃ اللہ کو ذات الٰہی سے نسبت ہے ۔اس نسبت نے اسے تقدس عطا کردیا۔ حجرا سود کو بھی اسی لیے تقدس کا درجہ عطا ہوا کہ اس کا تعلق بھی مقدس ذات سے ہے۔ یہ پتھر کاتقدس نہیں نسبت کا تقدس ہے۔ رسالت مآب ﷺ کی ذات کی نسبت سے مدینہ کو بھی حرم کادرجہ مل گیا۔
مسجد نبوی اللہ کاگھر ہے لیکن ذات نبوی کا بھی گھر ہے۔یہاں آپ ﷺنے قیام فرمایا، یہاں آپ نے مسجد تعمیر کی لہٰذا اس گھرکو ذات الٰہی اور ذات محبوب الٰہی کی وجہ سے تقدس، تقدیس، تکریم، تعظیم عطا ہوگئی۔ دنیا میں تین مساجد کی طرف سفر عبادت ہے یہ تینوں مساجد ذات الٰہی اور ذات پیغمبران الٰہی سے منسوب ہیں لہٰذا ان کا درجہ دیگر مساجد سے بلند ہوگیا ۔اسلامی تاریخ میں اس مدرسے کو زیادہ اہمیت ملتی جہاں بڑے اساتذہ جمع ہوتے کیونکہ علم ذات مرکز ہے۔ مدرسہ سند نہیں دیتا تھا،استاد سند دیتا تھا اورمزید علم حاصل کرنے کی اجازت بھی مدرسہ نہیں بلکہ استاد ہی دیتا تھا۔مدرسہ استاد کی وجہ سے مشہورہوتاتھا ،اپنے حسن،جمال، کمال اور تعمیر سے شہرت نہیں پاتا تھا۔ اس لیے اسلامی علمیت میں ذات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ میڈیاکا دائرہ اس کے بالکل برعکس ہے۔