کچھ ان کی زبانی
گفتگو مولانا صوفی عیش محمدؒ مرتب: محمد سلیم جباری
’’میرا نام عیش محمد ہے۔ہمارے خاندان میں دین کا علم نہیں تھا۔مَیں جب جوان ہواتو گورنمنٹ کالج(فیصل آباد) میں داخلہ لیا تو میرے نام پر مسئلے اٹھے، اعتراض ہوئے۔ مَیں نے مولانا محمد عبداللہؒ ویروالوی سے ا پنے نام کے بارے میں مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم اپنا نام محمد عبداللہ رکھ لو۔چونکہ مَیں صوفی محمد عبداللہؒ سے بیعت تھا لہٰذا ان سے بھی مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم اپنا نام صرف محمد رکھو۔ تب تین پیسے کاایک کارڈ ہوتا تھا جس پر نام درج کروایا جاتا تھا۔ انہوں نے اس پر اپنے ہاتھ سے لکھ دیا کہ آج کے بعد تمہارا نام محمد ہے۔ اس کے بعد میں نے شناختی کارڈ اورسندوں پر بھی اپنا نام تبدیل کرواکے محمد لکھوا لیا۔ مَیں نے درس نظامی بھی اسی نام سے کیا، پاسپورٹ پربھی محمد ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ایک قبیلہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تھا اس کا نام عیش تھا۔ مولانامحی الدین کے والد مولانا محمد علی لکھویؒ سے مدینہ منورہ میں ملاقات ہوئی، انہوں نے میرے متعلق اپنے بھتیجے مولانا معین الدین لکھوی کو خط لکھا تو اس میں عائش محمد لکھ دیا۔ بہرحال معروف نام عیش محمد ہی ہے۔ لوگ عائش محمد اور عیش محمد ہر طرح سے لکھ دیتے ہیں۔
میری آپ سے تاکیداً ایک درخواست ہے کہ اگر آپ نے میرے بارے میں کچھ شائع کرنا ہے تو میرے نام کے ساتھ بھائی عیش محمد لکھنا۔ مولانا وغیرہ کچھ نہیں لکھنا۔ یہ مجھے مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کی نصیحت تھی کہ بڑے بڑے القابات سے بچنا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ بھائی بھائی بنایا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے بھی اپنے بارے میں اَکْرِمُوْااَخَاکُمْ فرمایا ہے۔ اس لیے میرے نام کے ساتھ بھائی عیش محمد لکھنا ہے بس۔
میری تاریخ پیدائش ۴فروری ۱۹۴۱ء ہے۔ بڈھیمال ہمارا گائوں تھا۔ ہمارا گائوں علمائے کرام اور شیوخ الحدیث کامرکز ہے۔ قاضی سید سلیمان منصور پوریؒ کا خاندان وہاں آباد تھا، پھر وہ دوسرے علاقے میں چلے گئے۔ ایک کھوکھر راجپوت خاندان وہاں آباد تھا جو شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی اور شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ ؒکا خاندان ہے۔ اسی طرح ایک تیسرا خاندان بھٹی راجپوت تھا جو شیخ الحدیث مولانا عبداللہ بڈھیمالوی کا خاندان ہے۔ یہ سارے خاندان ماشاء اللہ علوم نبوت کے سمندر تھے۔ سچ بات ہے حافظ احمد اللہ ؒ تقویٰ کے امام تھے۔ وہ جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث بھی رہے۔
بڈھیمال کا علاقہ تحصیل مکسر ضلع فیروزپور میں واقع تھا۔ جب ملک تقسیم ہوا تب میری عمر ۶سال تھی ۔ہمارا پورا گائوں ہی ہجرت کرکے یہاں آکر جڑانوالہ کے قریب ۳۶گ ب میں رہائش پذیر ہوگیا۔ میرے والد صاحب ان پڑھ تھے بلکہ سارا خاندان ہی ان پڑھ تھا مگر میری والدہ محترمہ کو بہت شوق تھا کہ میرا بچہ پڑھ جائے۔ مجھ پر بڑا کرم ہوا کہ شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی کے والد شیخ الحدیث مولانا احمد اللہؒ میرے ساتھ بڑی شفقت فرماتے تھے، اور وہ ہمارے خاندان کے بڑے خیرخواہ تھے۔ میں بچپن سے ہی ان کے گھر پڑھنے لگ گیا تھا۔ پھر اللہ کافضل ہوا کہ میں سکول میں بھی داخل ہوگیا، جب تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز ہوا تو میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔مجھے دین سے اس قدر لگائو تھا جب پتہ چلا کہ لوگ گرفتار ہورہے ہیں تومیں بھی گرفتاری دینے کے لیے تیار ہوگیا مگر گھروالوں نے صغر سنی کی وجہ سے روکا تو میں رونے لگ گیا۔ مجھے پتہ چلا کہ جامع مسجد کچہری بازار فیصل آباد میں لوگ جمع ہو رہے ہیں مَیں اکیلا ہی وہاں پہنچ گیا۔ کچھ دیر ٹھہرا پھر واپس چلا گیا۔ اگلے دن پتہ چلا کہ جو لوگ وہاں رہ گئے تھے انہیں گرفتار کرکے دور کہیں جنگل میں لے جا کرچھوڑدیاگیا ہے۔ بہرحال یوں مَیں اس سعادت سے محروم رہا۔
آپ حیران ہوں گے کہ دین میں اللہ تعالیٰ نے کیا برکتیں رکھی ہیں۔ پانچویں کلاس میں پندرہ طالب علم تھے جن میں سے صرف دو پاس ہوئے، ایک میں اور دوسرا علی احمد تھا، باقی تیرہ طالب علم فیل ہوگئے۔ میں آٹھویں جماعت میں تھاجب صوفی عبداللہؒ سے روڑالہ روڈ سٹیشن پر میری ملاقات ہوئی۔ یہ رمضان المبارک کامہینہ تھا۔ ان سے مَیں نے دعا کرائی۔ اس سال پہلی مرتبہ میں نے اعتکاف کیا، اس دوران قرآن مجید پڑھتا رہا۔جب سورہ یاسین کی آ یت يٰحَسْرَۃً عَلَي الْعِبَادِ۔۔۔ پر پہنچا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، مجھے بے پناہ لذت حاصل ہوئی ،تب میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر لیا کہ اب ہر سال اعتکاف کیا کروں گا۔
اس کے بعد ہائی سکول میں آگیا۔ مَیں ا نگلش میں بہت کمزور تھا۔ وہاں ایک طالب علم تھا حسن جھوک خیالی کا،وہ میرے مقابلے میں تھا۔ مجھے صوفی عبداللہؒ نے جو وظیفے بتا رکھے تھے مَیں وہ پڑھتا رہا۔ ۷مرتبہ درود شریف، ۴۱مرتبہ سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص،سورۃ فلق اور سورۃ ناس ایک ایک مرتبہ اور سورۃ مومنون کی آخری ۴ آیات، پھر آخر میں درود شریف ۷مرتبہ۔
میں دعا کرتا تھا یا الٰہی حسن سے میرے نمبر بڑھا دے، چاہے آٹھ ہی بڑھا دے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے انوار برستے رہے ،جب رزلٹ آیا تو مَیں ہائی فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوا، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مانگی گئی دعا مِن وعَن پوری ہوئی۔ حسن کے ۶۱۰ نمبر تھے اور میرے ۶۱۸ گویا آٹھ نمبر ہی زیادہ ہوئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات پرمیرا یقین اور بھی پختہ ہوگیا۔
مجھے چونکہ مذہب کے ساتھ لگائو تھا لہٰذا کلیتہ دارالقرآن والحدیث (جامعہ تعلیماتاسلامیہ فیصل آباد)میں داخلہ لے لیا ۔ساتھ ہی جی سی یونیورسٹی جواس وقت گورنمنٹ کالج ہوا کرتا تھا، اس میں بھی داخلہ لے لیا۔میں وہاں پڑھنا نہیں چاہتا تھالیکن میٹرک میں نمبرچونکہ اچھے آگئے تھے اس لیے سب نے داخلہ لینے پرمجبور کیا۔ دونوں طرح کی تعلیم ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ ۱۹۵۸ء کی بات ہے صدرایوب کا دور تھا جب میں نے فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا،دو سال گورنمنٹ کالج میںپڑھا،وہاں بھی میرے اچھے نمبر آگئے،۵۲۷نمبر تھے فرسٹ ڈویژن سے ۱۳نمبر کم رہے۔
میرے دل میں تھا کہ علامہ مشرقی نے ۲۷ سندیں لی تھیں تومَیں بھی ہر سال امتحان دے کر ایک سند لیا کروں گا۔ یوں میں نے فارسی فاضل کی بھی تیاری کی اورمولوی فاضل بھی کیا۔ بی اے کا بھی امتحان دیا مگر انگلش میں فیل ہوگیا۔
مَیں نے ادیب فاضل اس لیے کیا تھاکہ مضمون لکھا کروں گا لیکن مَیں نے اس لیے نہیں لکھا کہ اخبارات میں چھپ کر شہرت ہوجاتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:لا یشارالیہ بالاصابع کہ بندہ وہی ہے جو لوگوں میں گم رہے، لوگ اس کی طرف اشارے نہ کریں۔اس لیے میں نے کوئی مضمون نہیں لکھا۔ ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب نے مجھے تاکید کی کہ کم ازکم صوفی صاحب پر لکھوں۔ پھرمیں نے حضرت صوفی صاحب پرمضمون لکھا وہ ہفت روزہ ’الاعتصام ‘لاہورمیں شائع ہوا۔ حضرت حکیم عبدالرحیم اشرفؒ بھی مجھے تاکید فرماتے تھے کہ ہمارے سید ابوبکر غزنویؒ کے ساتھ بہت تعلقات تھے۔ لہٰذا آپ ان پر لکھیں۔انہوں نے کئی دفعہ یہ بھی کہا کہ آپ چاہے ملغوبہ ساہی لکھ دیں میں خود صحیح کرلوں گا، میں وہ بھی نہ لکھ سکا۔ بعد میں پھر مَیں نے سیدابوبکرغزنویؒ پر ایک مضمون لکھا جو روزنامہ پاکستان ، نوائے وقت وغیرہ چاراخباروں میں شائع ہوا۔ اس کی نوک پلک سید جنید غزنوی صاحب نے درست کی تھی۔
جب کلیۃ دارالقرآن والحدیث میں پڑھتا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ حافظ عبداللہ روپڑیؒ ایک دن روزہ رکھتے او رایک دن چھوڑتے ہیں۔ لہٰذا میں بھی اسی طرح روزے رکھنے لگا۔ دارالقرآن میں بھی اور گورنمنٹ کالج میں بھی پڑھتا تھا۔ ایک یہاں فاروق ہائی سکول تھا وہاں پڑھاتا بھی تھا۔ مولانا عبدالعزیز علوی کو میٹرک کی تیاری بھی کرواتا تھا۔ ساتھ ہی میں نے ادیب فاضل کی تیاری بھی کی لہٰذا میری صحت کچھ متاثر ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے آرام کا مشورہ دیا او ر کہا پڑھائی چھوڑ دو۔ میں حضرت صوفی عبداللہؒ ؒکے پاس حاضر ہوا۔انہوں نے دعا کی۔اللہ کا فضل ہوا کہ کوئی دوائی بھی نہ کھائی کہ بہت جلد صحت بحال ہوگئی۔ ان دنوں دارالعلوم ڈھلیانہ رینالہ خورد میں حافظ احمد اللہؒ شیخ الحدیث تھے۔ وہاں جاکربخاری شریف پڑھنا شروع کردی۔ وہاں بھی میرا معمول یہی رہا کہ جون جولائی کے مہینے میں بھی ایک دن روزہ رکھتا ،ایک دن چھوڑدیتا۔ دس پارے قرآن مجید کی تلاوت بھی کرلیتا اور ساتھ بخاری بھی پڑھتا رہا۔ جب وہاں بخاری شریف پڑھ رہا تھاتو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برس رہی تھیں۔ تب مَیں کہا کرتا تھا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کو بھولے ہوئے ہیں۔ اس کی یاد میں تو بڑی لذت ہے۔ مجھے طاغوتی تعلیم سے نفرت ہوگئی۔ اللہ کاکرم ہوا کہ مجھے وہاں سے بخاری کی سند مل گئی۔ حضرت مولانا عبداللہ ویرووالویؒ کو پتہ چلا تو فرمانے لگے کہ یہاں سے بھی پڑھ لو۔ لہٰذا میں نے دوسری مرتبہ ان سے کلیۃ دارالقرآن والحدیث میں بخاری شریف پڑھی۔
چک ۸/۶۵۷گ ب بچیانہ نزد جڑانوالہ کے ہائی سکول میں بطور ٹیچر میری تعیناتی ہو گئی۔ حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کو پتہ چلا تو مجھے پیغام بھیجا کہ یہاں میر ے پاس آجائو۔لہٰذا میں ان کے پاس آگیا۔انہی دنوں میرے دل میں حج پر جانے کی خواہش پیداہوئی۔ مَیں حضرت صوفی عبداللہؒ کے پاس حاضر ہوا۔انہوںنے میرے لیے طویل دعا فرمائی اورایک وظیفہ بتایا کہ ۱۰۰ مرتبہ درود شریف ،۱۰۰ مرتبہ آیت الکرسی اور ۱۰۰مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھنی ہے۔
میں زرعی یونیورسٹی میں جاکر بیٹھ جاتا اوروظیفہ پڑھتا رہا۔ ساتھ ہی میں نے سوچا کہ اب کچھ بندوبست بھی کرناچاہیے۔ جب میں سکول میں ٹیچر تھا تو روزے رکھنے کے لیے ۳۵روپے کا ایک چولہا خریدا تھا سوچااور تو کوئی جائیدا د نہیں ہے اسی کو بیچ دیتاہوں۔ حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کے ایک بڑے معتقدمحمد حسین تھے۔ان کا بیٹا جامعہ تعلیمات اسلامیہ میں پڑھتا تھا، انہیں مَیں نے وہ چولہا ۳۲روپے کا فروخت کردیا۔ وہ دوست تھا اور دوستوں سے پیسے لینے میں ایک بڑا مسئلہ بھی ہوتا ہے لہٰذا وہ چولہا بھی گیا اور پیسے بھی گئے۔بہرحال کچھ صوفی صاحبؒ کی دعائیں اور میرے وظیفے جاری تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ زمینی اسباب پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ آخر کار ۱۹۶۹ء میں پہلی مرتبہ مجھے حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔
مجھے سید ابوبکرغزنویؒ سے بہت عقیدت تھی۔ میں انہیں امام سمجھتا تھا۔ ان سے وقت لینا بہت مشکل تھا۔ میری ان سےاتنی ہی ملاقات ہوتی تھی کہ جب مَیں ملاقات کے لیے جاتا، باہر سڑک پر کھڑا ہوتا وہ بالکونی سے گردن باہر نکالتے،حال احوال پوچھتے اوردعا دے کر رخصت
کردیتے۔ اگر میں ان سے کہتا کہ پانچ منٹ وقت چاہیے تو فرماتے اگر مَیں یونہی وقت دوں گا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا؟ وہ منٹ منٹ کی حفاظت کرتے تھے۔ ایک دفعہ مغرب کی نماز کے بعد میں ان سے ملا،دعا مانگی اور انہوں نے آمین کہا۔ حکیم عبدالرحیم اشرف ؒ کا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے سید صاحب کو بتایا کہ یہ آپ سے بہت عقید ت رکھتا ہے ۔حکیم صاحبؒ نے اتنا بہترین تعارف کروایا کہ اب وہ مجھے چھ چھ گھنٹے وقت دینے لگے۔ اسی طرح ایک سال سید ابوبکرغزنویؒ بھی حج پرجارہے تھے۔حکیم صاحبؒ نے ا نہیں فون کردیا کہ اسے بھی ساتھ لیتے جائیں۔ یوں ایک مرتبہ پھر حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہم اکٹھے ایک ہی کمرے میں رہے۔
صوفی عبداللہ رحمتہ اللہ کے ساتھ بھی پہلے میرا تعلق صرف ذکر واذکار اور وظائف کی حد تک تھا۔ حکیم صاحبؒ نے صوفی صاحبؒ کو کہا کہ انہیںماموں کانجن بلالو۔صوفی صاحب ؒ نے کہا کہ وہ تو اپنے گائوں۳۶میں مدرسہ بنا کر کام شروع کر چکاہے تو حکیم صاحبؒ نے فرمایا غلطی کی اصلاح ہونی چاہیے ۔لہٰذا صوفی صاحب ؒ نے مجھے ماموں کانجن بلالیا۔۱۹۷۳ء کی بات ہے میرا پاسپورٹ نہیں بن رہا تھا تو حکیم عبدالرحیم اشرف رحمتہ اللہ نے ہی خواجہ طفیل صاحب کو کہہ کر مسئلہ حل کروایا۔ حکیم صاحبؒ کے مجھ پر بڑے احسانات ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے، آمین۔
میرے ذہن میں شروع سے ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ زکوٰۃ سے بچائے۔ کوئی تجارت کی جائے اور دین کا کام مفت میں کیا جائے۔سچی بات ہے جب بھی مَیں نے کوئی کام کیا گھاٹا ہی پڑا سوائے ایک موقع کے۔ جب مَیں کراچی میں تھا تو مجھے پتہ چلا کہ مکہ میں ایک ہوٹل ہے جس کا نام ہے مطعم یرموک،اس کاسالانہ کرایہ ۵لاکھ ریال تھا۔مَیں نے سوچا کہ اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔میں سعودیہ گیا تو وہاں دعا مانگ کر آگیا کہ یا اللہ! یہاں میرے علاوہ کسی کے پائو ں نہ جمیں، یہ ہوٹل مجھے ہی ملنا چاہیے۔ہوٹل کے مالک کو پتا چلا کہ مولوی صاحب کے پاس تو اتنے پیسے ہی نہیں ہیں لہٰذا اس نے اور پارٹیوں سے رابطہ کرنا شروع کردیا مگر کسی کے قدم نہ جمے۔ آخر کارانہوںنے مجھے فون کیا کہ آجائو۔مَیں جامعہ ابی بکر کراچی میں بیٹھا تھا لہٰذا میں نے تیاری شروع کردی۔ اب میرے لیے سوال یہ تھا کہ پانچ لاکھ ریال کہاں سے دوں گا۔ پاس تو کوئی پیسہ ہی نہ تھا۔ میرے دماغ پر بہت دبائو تھا، احرام بھی نہ خرید سکا اسی طرح چل دیا اور جدہ جا پہنچا۔ وہاں جا کردیکھا تو بیگ میں سے ایک چونی نکلی۔اس چونی کو بو تھ میں ڈالوں تو فون بھی نہ ہو کیونکہ وہ پاکستانی چونی تھی۔ایک ٹیکسی ڈرائیور نے نصف ریال ڈالا تو فون پر بھائی خالد سے بات ہوئی ۔یہ خاندان کالج کے زمانے سے ہی میرا دوست تھا۔بھائی خالد نے کہا کہ میں لینے آرہا ہوں، یوں میں ان کے گھر پہنچا۔وہیں سے ا حرام باندھا اور بیت اللہ شریف چلا گیا۔ سوچ رہا تھا کہ اگرمیں نے کسی بندے کو بتایا کہ ۵لاکھ ریال( ۲۰ لاکھ پاکستانی )دے کر ہوٹل کھولنا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں تو لوگ کہیں گے کہ تم بے وقوف ہو لہٰذا میں نے کسی کو نہ بتایا۔ میں نے روزے رکھنے شروع کردیئے اور ﴿ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ﴾سوا لاکھ مرتبہ پڑھنی شروع کی جو سات دنوں میں پوری ہوگئی۔ جب بندے کو فکر ہو توہ وظیفہ بھی بہت چلتا ہے۔میں نے دعا مانگی یااللہ! غریب ،مسکین کے لیے ہوٹل دے دے۔ خالد صاحب کی آمدن بھی بہت زیادہ نہ تھی مگرمیں نے ان سے کہا کہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ۔ان سے جو ممکن ہوا انہوں نے دے دیئے ۔یہ ۸۰۔۱۹۷۹ء کی بات ہے۔ مَیں نے ہوٹل کے مالک حامد سے جاکر کہا کہ یا اخی فی اللہ خُذ اس نے پیسے پکڑ لیے اور گنےبھی نہیں اور ہوٹل کی چابیاں میرے حوالے کردیں،کیونکہ وہ مایوس ہو چکا تھا۔ اسے جو بھی مل رہا تھا اس نے وہی غنیمت جانا۔
وہ ہوٹل بہت چلا، ۲۰لاکھ ریال سالانہ اس کی آمدن تھی۔ میرے پہلے قرضے بھی اتر گئے اور ستر خاندان کھا رہے تھے ۔جتنی اسلامی تحریکیں تھیں سب کا حصہ رکھا ہوا تھا ۔عملے کو بھی خوراک وافر مل رہی تھی ۔ان کے والدین حج پر جاتے تو انہیں بھی اچھی خوراک مہیا کراتا۔ پھرمَیں نے ۵۳ہزا ر ریال کی ایک اور بلڈنگ لے لی اور ملازمین سے کہا کہ تم اپنی بیویوں کو بھی یہاں بلوا لو۔پورے مکے پر گویا قبضہ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔میں صرف حج کے موقع پر جاتا تھا۔ ایک دفعہ جب میں وہاں گیا تو ضیاء الرحمن نامی فیصل آباد کاایک تاجر تھا اس نے ایک حصہ مجھ سے کرائے پر لے رکھا تھا،اس نے بتایا کہ مولوی صاحب آپ کے عملے میںسے کسی نے بھی اپنی فیملی کو یہاں نہیں بلوایا بلکہ ان خالی کمروں میں گناہ ہو رہا ہے۔ بس پھرمیرے سر پر پانی پڑ گیا۔ بہرحال پھرمیں نے وہ ہوٹل چھوڑ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے وہ غلطی ہوئی کہ ناک سے مکھی اڑاتے ہیں ناک کاٹتے نہیں ورنہ مکھیاں زیادہ بیٹھتی ہیں۔ (بشکریہ المنبر فیصل آباد)