پاکستان کی سیکولرسیاسی جماعتیں ملک کو تباہ کرنے کی ذمہ دار ہیں
ہماری سیاسی جماعتیں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے بعض نے ملک توڑا۔ ملک کو معاشی طور پر تباہ کیا۔ ی سیکولر اور لبرل ہیں اور ملک میں اسلام کی بجائے مغربی تہذیب کے غلبے اورملک کو مغرب کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی ذمہ دارہیں
]ہمیں باغی کے خیالات اور اسلوب سے اتفاق نہیں ہے لیکن چونکہ وہ اخلاص اور سچ کا دعویٰ کرتا ہے اس لیے اس کے کالم کو ہم نے برداشت کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا قارئین بھی اسے برداشت کرپائیں گے؟مدیر[
مغرب کی جمہوریت کو ہم غلط کہتے ہیں کیونکہ یہ سیکولر اور لبرل ہے ۔یہ خدا ،اس کی شریعت اور وحی کے غلبے کو تسلیم نہیں کرتی اور عوام کو حاکم سمجھتی اور انسان اوراس کی عقل وتجربے کو دین اور مذہب پر غالب کرتی ہے لیکن اس کے باوجود غیرمسلموں کے لیے یہ بلاشبہ اچھا اورکامیاب نظامِ حکومت ہے۔ اس نے مغربی ممالک کو سیاسی اورمعاشی استحکام بخشاہے اور انہوں نے ترقی کی ہے۔لیکن افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے پاکستان میں جس طرح کا سیاسی جمہوری اور انتخابی نظام اپنایا ہے اس نے مغرب کے جمہوری نظام سے مربوط ساری خوبیوں کو تباہ کرکے رکھ دیاہے۔مثلاً
– یہاں جمہوریت جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی لونڈی ہے۔انہوں نے عوام میں تعلیم عام نہیں ہونے دی اور غربت کو ختم نہیں ہونے دیا تا کہ عوام باشعور نہ ہو جائیں۔ برادری سسٹم، پیسے،جھرلو،فوج کی طرف سے پولیٹیکل انجینئرنگ اور سیاسی جماعتوں کافوجی حکومت کے ساتھ مل جانا۔۔۔ ان ساری چیزوں نے مل کر پاکستان میں جمہوریت کو تباہ کیاہے۔
– ان میں سے بعض سیاستدانوں اوران کی سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی اقتدار کے لیے ملک توڑا۔بھٹو، مجیب اور یحییٰ خان ملک توڑنے کے ذمہ دارہیں کیونکہ انہیں اپنا اقتدار ملک سے زیادہ عزیز تھا۔صوبہ سرحد، اندرون سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی وفاداریاںکس سے وابستہ رہی ہیں اور وابستہ ہیں ؟ غداری اور کس کو کہتے ہیں؟زرداری اورنوازشریف ( پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ) نے اقتدار اورملکی سرمایے کو لوٹنے کے لیے ملی بھگت کر کے حکومت کی باریاں مقرر کرلیں۔ کرپشن کو انہوں نے مال غنیمت سمجھا اور غیر ملکوں سے قرضے لے کر رقمیں اپنے غیر ملکی اکائونٹوں میں جمع کیں، اور ان سے وہاں جائیدادیں بنائیں۔یہ کون سی جمہوریت ہے؟پھر اسے خاندانی وراثت بنا لیا اور اب ان کی اولاد پاکستان پر حکمران ہے اور حکمرانی کرتی نظر آتی ہے۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟
– انہوں نے اسلام، پاکستان اور دو قومی نظریے کو پس پشت ڈالا۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ (یعنی اسلام اورمسلم دشمن مغربی استعمار) کے کہنے پر اسلامی جماعتوں کو تقسیم کیا ، انہیں باہم لڑایا، کمزور کیا اورغیر موثر بنایا۔ اسلامی اصولوںاوراقدار کی بجائے سیکولرزم،لبرل ازم، ہیومنز م اورمغرب کے سرمایہ درانہ نظام کو ملک میں غالب کیا اوریوں اللہ کو بھی ناراض کیا اور غریب اور اسلام پسند عوام اور دینی قوتوں کو بھی کچلا۔ لعنت ہو ان منافق سیاستدانوںپر اوران کی سیاست پر!
– عمران خان آیا اور ان ساری خرابیوں کے خلاف نعرہ لگایا لیکن الیکٹیبلز کی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے برسراقتدار آیا اور انہی نے اس کا بیڑا غرق کردیا۔اس پر مستزاد اس کی نالائقی اور ناتجربہ کاری کہ وہ ڈیلیورنہ کرسکا۔ اب چونکہ اس نے سرنڈر نہیں کیا لہٰذا ملک شدید سیاسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ معیشت کا بیڑا غرق ہوچکاہے اورعوام مہنگائی کے ہاتھوںدووقت کی روٹی کے محتاج ہو رہے ہیں۔ اب یا تو انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ،پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی کاسہ لیس سیاسی جماعتیں کامیاب ہو ں گی اور عمران اور اس کی جماعت کوکچلنے میں کامیاب ہو جائیں گی یا عمران اوراس کی جماعت بچ نکلنے میں کامیاب ہوںگی۔ اس کا امکان صرف تب ہے اگر عوام اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں جس کے لیے وہ کوشاں ہے اور جس کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں۔کیونکہ اس سے پہلے بھی عوام دو دفعہ ایوب خان اور بھٹو کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے لیکن انہیں کچھ نہ ملا اورطوطا میٹھی چُوری کھا گیا۔
عمران بھی سیکولر اور لبرل ہے ،لائق بھی نہیں تاہم مذکورہ بالا ٹرائیکا کے مقابلے میں کم تر برائی ہے لہٰذا ہم اسے غنیمت سمجھتے اور بڑی برائی کے مقابلے میں (اور اس سے بہتر متبادل موجود نہ ہونے کی وجہ سے) چھوٹی برائی کے طور پر اسے قبول کرنے اور اس کی حمایت کرنے پرمجبور ہیں۔
آج کے کالم میں ہم نے پاکستان کی سیکولر سیاسی جماعتوں کی بات کی (فوج کا سیاسی کرداربھی اسی کا ایک حصہ ہے) اگلی نشست میں ہم پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔