پاکستانی معاشرہ- اخلاقی تباہی کے دہانے

* فیصل آباد میں ایک سرمایہ دار نے اپنی بیٹی کی سہیلی سے شادی کرنا چاہی۔ انکار پر اسے اغوا کرایا۔ اس نے بیوی، بیٹی اور ملازموں سے مل کر اسے گھسیٹا، بال نوچے، اس کی بھنویں مونڈیں، تھپڑوں اور جوتوں سے مارا، اس پر جنسی تشدد کیا ۔ اسے جوتے کے تلوے چاٹنے پر مجبور کیا۔ اس کی ویڈیو بنائی اور انٹرنیٹ پر وائرل کردی۔ چونکہ وہ ایک بارسوخ اور طاقتور شخص ہے۔ قانون اس کو کٹہرے میں لانے کے لیے اٹھکھیلیاں کررہا ہے اور شیطانی وکیل اس کو بچانے کے سارے گُر آزما رہے ہیں۔
* حکمرانوں نے ۱۴؍ اگست کو یوم آزادی منانے کے لیے وزیر اعظم، ارکان کا بینہ اور ممبران قومی اسمبلی کو مدعو کرکے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا بھارتی گانوں پر ڈانس کرایا۔
اپنے سیاسی مخالف شہباز گل کو گرفتار کرکے اسے مارا پیٹا، دمہ کے مریض کو آکسیجن ماسک نہ دے کر اسے تڑپایا اور اس پر جنسی تشدد کیا۔ عدالتیں اور قانون تماشا دیکھ رہے ہیں۔
* پچھلے ایک مہینے میں اخبار ات میں تین واقعات ایسے پڑھنے میں آئے جن میں محارم کے ساتھ زنا کا ذکر تھا مثلاً باپ کا بیٹی کا جنسی استحصال کرنا۔
اسلام آباد میں شکر پڑیاں میں غیر ملکی خواتین کو نوجوانوں کا جنسی طور پر ہراساں کرنا۔
اے علماء کرام، دینی قائدین، حکمرانو! دانشورو! ماہرین تعلیم ومیڈیا! یہ ہم کدھر جارہے ہیں؟ ہم قوم کی کیا تربیت کررہے ہیں؟ ہم اپنے معاشرے کو اخلاقی بحران میں کیوں مبتلا کررہے ہیں؟ اور کیوں ہم خود کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنانے پر تلے ہوئے ہیں؟