پاکستان کے معاشی بحران کا حل موجود ہے

اس کے لیے ایمانی جرأت اور بحران کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے

آج کل پورے ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ ہم معاشی بحران کے دور سے گزر رہے ہیں۔ انفلیشن (inflation) آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ بین الاقوامی ادائیگیوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ سودی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی اخراجات وصولیوں سے بہت زیادہ ہیں۔ منظم معیشت (formal economy) میں سرمایہ کاری اور بچتیں منجمد ہیں۔
اس سب کے باوجود عوام خاموش ہیں اور کسی بڑی نظاماتی بغاوت کے کئی آثار دکھائی نہیں دیتے جیسا کہ لاطینی امریکا اور مشرقی یورپ کے ممالک میں معمول ہے۔ عوام کے معاشرتی جمود کی تین اہم وجوہات ہیں:
۱۔ عوام کی نظریاتی لاتعلقی: عوام نظریاتی طور پر بانجھ ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور اسلامی نظام معیشت میں فرق کا تصور نہیں رکھتے۔ نظریہ کی عدم موجودگی میں تحرک ناممکن ہے۔
۲۔ عوام جس نظاماتی ساخت (structure) کے محکوم ہیں وہ مستحکم ہے۔ یہ وہ مالیاتی نظام ہے جس میں عوام مفاداتی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر گروہ اپنے سیاسی مربی پر انحصار کرتا ہے۔ ایسے میں سرمایہ دارانہ یا غیر سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد کمزور بھی ہوتی ہے اور سیاسی نظاماتی انجماد کو تقویت دینے والی بھی۔ ریاستی اور سیاسی اشرافیہ میں کشمکش نورا کشتی بن جاتی ہے (جیسا کہ عمران خان اور موجودہ حکومت کی کشمکش ہے) اور اس نورا کشتی سے نظاماتی تغیر برپا نہیں ہوتا۔
۳۔ ملک دو بڑے دائروں میں منقسم ہے۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت (لیبر فورس کی تقریباً 80 فیصد) منظم معیشت سے گہرا تعلق نہیں رکھتی۔ لوگ اپنا رزق خود پیدا کرتے ہیں۔ وہ خود ملازمتی (self-employed) ہیں۔ ان کو سرمایہ کی گردش (سود اور سٹہ کے مارکیٹوں کی کارفرمائی) سے بالواسطہ رابطہ نہیں پڑتا۔ غیر منظم معیشت (informal economy) مستحکم ہے اس میں کوئی بحران نہیں۔
بحران صرف منظم معیشت میں آیا ہوا ہے۔ اس معیشت کے بھی دو حصے ہیں۔ نجی منظم معیشت اور سرکاری منظم معیشت۔ دونوں سرمایہ دارانہ خطوط پر منظم ہیں۔ سرکاری معیشت اور نجی منظم معیشت کی بڑی کارپوریشنوں کا شعبہ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت سے پیوست ہے اور یہ دونوں شعبے بحران کا شکار ہیں۔
عمران خان کےدورِ حکومت میں اس پیوستگی میں اضافہ ہوا۔ عمران خان نے اتنے بین الاقوامی سودی قرضے لیے جو پچھلے ستر سال میں لیے گئے قرضوں کے برابر تھے۔ عمران خان نے 2019ء میں آئی ایم ایف سے وہ شرمناک معاہدہ کیا جس کی وجہ سے سامراج کی گرفت پاکستانی معیشت پر اتنی مضبوط ہوئی کہ ہمیں اسٹیٹ بینک کو سامراج کے ہاتھوں بیچنا پڑا۔ عمران خان نے درآمدات کے سیلاب میں منظم معیشت کو ڈبو دیا۔ عمران خان سامراج کا غلام ثابت ہوا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بھی سامراج کی غلام جماعتیں ہیں۔ ہم ان کی کشمکش کو نورا کشتی اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں تبدیلیٔ اقتدار کے نتیجہ میں پاکستانی منظم معیشت کی عالمی سامراجی نظاماتی پیوستگی میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔منظم معیشت کے بحران سے نکلنے کی لازمی شرائط
اس منظم شعبہ جاتی بحران سے نکلنے کی دو ضرورتیں ہیں جو ہماری سیاسی اشرافیہ (خواہ عمران خان ہویا مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی) کبھی پوری نہیں کر سکتی۔
پہلی ضرورت یہ ہے کہ منظم معیشت کی غیر منظم معیشت میں پیوستگی میں برق رفتار اضافہ ہو۔ یعنی منظم معیشت غیر منظم معیشت میں ضم ہوتی چلی جائے۔ اس کے لیے سود اور سٹہ کی مارکیٹوں کو منہدم کرنا، تمام بینکوں (بشمول اسلامی بینکوں) اور سودی فنانشل اداروں کو قومیانا، قومی پیداواری رسدی زنجیروں (domestic production supply chains) کی تعمیر وتوسیع اور ایک قومی کرنسی کا اجرا جس کی مقدار کا تعین قومی پیداواری ضرورتوں کے مطابق کیا جائے اور جس کا تعلق بیرونی کرنسیوں کے ذخائر (foreign exchange reserves) سے نہ ہو، ضروری ہے۔
دوسری ضرورت اس بات کی ہے کہ سامراجی معیشت پر انحصار کم کیا جائے۔ زر مبادلہ (foreign exchange) کی شرح کا تقرر قومی پیداواری ضرورتوں کے مطابق ہو۔ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف اور سامراجی زری مارکیٹوں (global commercial markets) کی غلامی سے نجات دلائی جائے۔ زر کی بین الاقوامی ترسیل پر پابندی عاید کی جائے۔ درآمدات کو لائسنسنگ (import licencing)کے ذریعے کلیدی شعبوں (تیل، توانائی، پیداواری مشینری) تک محدود کیا جائے۔ درآمدات کی جگہ ملکی پیداواری سکت (import substituting capability) کو فروغ دیا جائے۔
اور سب سے اہم اور فی الفور کرنے کا کام یہ ہے کہ سری لنکا، لبنان، وینزویلا اور دیگر کئی لاطینی امریکی ملکوں کی طرح سامراجی قرضہ جات کی اصل اور سود کی ادائیگیوں کو ایک مدت کے لیے منسوخ کیا جائے۔ سودی ادائیگیوں سے ہمیشہ کے لیے انکار کیا جائے کیونکہ بیش تر مذاہب (اسلام، عیسائیت) میں سود خوری کی ممانعت ہے اور اصل کی ادائیگی کے لیے قرضہ دینے والے اداروں سے مذاکرات کیے جائیں۔ اصل (princinpal) کی سالانہ ادائیگی برآمدی محصولات کے تقریباً دس فیصد تک محدود کی جائے (یعنی رواں سال میں تقریباً تین بلین ڈالر)۔ نئے سودی قرضے نہ لیے جائیں۔ نہ نجی بینکوں سے، نہ سرکاری اداروں سے اور نہ سامراجی بین الاقوامی قرضہ دینے والے اداروں (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ) سے۔
یہ حکمت عملی بآسانی اختیار کی جاسکتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیفالٹ سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ ڈیفالٹ سرمایہ دارانہ سودی بازاروں میں عام ہے۔ روزمرہ کا معاملہ ہے۔ 1988 ءسے 2020 ءتک تقریبا 23 ممالک ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور ان کی بہت بڑی اکثریت کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ پاکستان کے بین الاقوامی واجبات فی اشاریہ ایک بھی نہیں۔ ان کی عدم ادائیگی یا وقتی منسوخی کا کوئی نوٹس بھی نہیں کر سکے گا۔ سری لنکا اور لبنان نے حال ہی میں ڈیفالٹ کر دیا۔ بنگلہ دیش ڈیفالٹ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ ان ممالک کے خلاف نہ کوئی پابندیاں لگائی گئیں اور نہ کوئی تادیبی کاروائی عمل میں آئی۔ پابندیاں لگانے کی وجہ ڈیفالٹ کبھی نہیں ہوتی۔اس کی وجہ سیاسی ہوتی ہے۔
لیکن پاکستانی سیاسی اشرافیہ کبھی ڈیفالٹ کرنے کا تصور نہیں کرسکتی۔ چنانچہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت سامراج سے بھیک مانگتی پھر رہی ہے اور عمران خان اپنی مزاحمتی مہم میں ڈیفالٹ کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کر رہا۔ وہ یہ تک نہیں کہہ رہا کہ اگر میں دوبارہ آیا تو سامراجی قرضے لینے سے پرپیز کروں گا۔ سامراجی قرضوں کی بہتات نے ہی منظم معیشت کا بحران پیدا کیا ہے اورہمارے حکمران سامراجی قرضوں کے انبار میں اضافہ کو ہی بحران کا حل تصور کرتے ہیں ؎
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
ایسا کیوں ہے اور ان حرامخوروں سے کچھ کہنا کیوں عبث ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرام خور سامراج کی تخلیق اور اس کے پروردہ ہیں۔ یہ سامراجی سرمایہ دارانہ عقائد اور نظریات پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ قوم پرست ہیں۔ لبرل ہیں۔ ہیومنسٹ ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹ ہیں۔ جس گھناؤنی ثقافت میں یہ زندگی گزار رہے ہیں وہ ان کے ان فاسد عقائد اور ایمانیات کو مستحکم کر رہا ہے۔ پھر ان کے مادی مفادات بھی سامراج سے وابستہ ہیں۔ ان کی اولاد بھی سامراج کی آغوش میں پل رہی ہے۔ یہ اپنے نفس کے بھی غلام ہیں اور اپنے سامراجی آقاؤں کے بھی۔ ان کے بس میں نہیں کہ یہ سامراج کی تابع داری کو ترک کریں۔
ناحق ان مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
اسلامی جماعتیں کیا کریں؟
ہماری اسلامی جماعتوں (سیاسی اور غیر سیاسی) دونوں نے کبھی بھی کوئی مربوط نظاماتی حکمت عملی مرتب نہیں کی۔ لہٰذا ملک میں کوئی اسلامی معاشی تشخص ابھر نہ سکا۔ اپنی اس نظاماتی کمزوری کو رفع کرنے کے لیے دو اقدام ممکن بھی ہیں اور ضروری بھی۔
اولاً :ہمیں غیر منظم معیشت (informal economy) کو اسلامی خطوط پر منظم کرنے کی جدوجہد کرنا چاہیے۔ یہ شعبہ سرمایہ دارانہ گرفت سے بھی قدرے آزاد ہے( اس پر سود اور سٹہ کی مارکیٹوں کا تسلط بھی نہ ہونے کے برابر ہے)اور حکومتی گرفت سے بھی۔ الحمدللہ اسلامی بینک بھی اس شعبہ میں دراندازی سے قاصر رہے ہیں۔ ہمیں اس شعبہ میں ایک ملک گیر تمویلی نظام کے اجرا کی جدوجہد کرنا چاہیے جس کا مقصد غیر سودی قرضوں کی فراہمی کے باعث حلال کاروبار کے دائرہ کار میں فروغ ہو جو اس شعبہ کو خود کفالتی (self-sustaining) بنا دے۔ ہمیں اس شعبہ کو حکومتی دست برد سے محفوظ رکھنے کی بھی کوشش کرنا چاہیے۔ بالخصوص دستاویزیت (documentation) کی مہم کو ناکام بنانے کی جدوجہد اور محصولاتی مزاحمت (tax resistance ) کو فروغ دینا چاہیے۔ یہ اقدامات اس لیے ضروری ہیں کہ غیر منظم معیشت سود اور غررکے تحکم سے محفوظ رہے اور منظم معیشت کا بحران غیر منظم معیشت پر اثرانداز نہ ہو۔ غیر منظم معیشت میں پیداواری اور حکومتی رسدی زنجیروں (value chains) کو تقویت دینے کی بھی ضرورت ہے اور آئی ٹی سروسز اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ثانیاً:اسلامی جماعتوں کو سامراج نواز پالیسیوں کی بھرپور مخالفت اور مذمت کرنی چاہیے۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہماری سب سے بڑی اسلامی جماعت یعنی جمعیت علمائے اسلام مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سامراج نواز معاشی پالیسیوں کی تائید کر رہی ہے۔ اس نے حکومت میں وزارتیں قبول کرنے کی غلطی کی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے شریعت کورٹ کے امتناع سود کے بارے میں فیصلہ دیا ہے اس کی مخالفت سے عملاً دست کش ہو گئی اور آئی ایم ایف کی تابع داری کے ذہن میں جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اس کے بارے میں بالکل خاموش ہے۔ اس سب کی سیاسی قیمت جمعیت علمائے اسلام کو چکانی پڑے گی اور اس عمل سے اس کی اسلامی شناخت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
موثر سامراج مخالفت کا کیا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟ تمام اسلامی جماعتوں (بالخصوص جمعیت علمائے اسلام، تحریک لبیک اور جماعت اسلامی) کو فی الفور آئی ایم ایف کے معاہدہ کی توسیع کی مخالفت کرنی چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ پاکستان بیرونی قرضوں(سود اور اصل) دونوں کی ادائیگی معطل کر دے۔ کوئی سیکولر سیاسی جماعت اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی اور موجودہ سیاسی حالات میں ڈیفالٹ اور آئی ایم ایف معاہدہ کی تنسیخ کی عوامی تائید بھی محدود رہنے کا امکان ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بنیادی اسلامی constitutency یعنی ملک بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں مخلصین دین میں سامراج مخالفت کی ضرورت کا احساس نہایت محدود ہے (اور ہم نے اس شعور کو بیدار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی)۔
موثر سامراج مخالفت کا ممکنہ ذریعہ آئندہ انتخابات میں کامیابی پر منحصر ہے۔ اگر:
۱۔ اسلامی جماعتیں متحد ہو جائیں
۲۔ اور ان کے انتخابی منشور میں ڈیفالٹ کرنے اور آئی ایم ایف منصوبے کی تنسیخ کامطالبہ ہو۔ ان شاء اللہ ہمیں ایک کروڑ سے زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں اور تیس سے پینتیس تک نشستیں قومی اسمبلی میں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے نمائندوں کا یہ بلاک حکومتی پالیسی سازی کے عمل پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور سیکولر جماعتوں کومغرب کی چاکری کی بڑی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔
ڈیفالٹ کے مضمرات
پچھلے 50 سالوں میں 147 ممالک نے ڈیفالٹ کیا ہے۔ بینک آف انگلینڈ نے یہ اعداد شمار جمع کئے ہیں۔
ڈیفالٹ کرنے کی بنیاد پر معاشی پابندیاں کہیں نہیں لگائی گئیں۔
ڈیفالٹ کے منفی نتائج
– روپے کی بین الاقوامی شرح تبادلہ (exchange rate)کی گراوٹ کا رجحان
– بین الاقوامی سودی قرضوں کی فراہمی منسوخ
پاکستان کے بین الاقوامی قرضوں کا حجم تقریباً 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔یہ مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 40 فی صد ہے۔
حکومتی آمد وخرچ میں جو سر پلس (surplus)ہوتا ہے وہ تقریباً سب کا سب ملکی اور بیرونی سودی اور اصلی ادائیگیوں میں صَرف ہوتا ہے۔
بیرونی سودی شرح بہ مقابل شرح مجموعی پیداواری نمو(GDP growth) منفی 4.8 ہے۔
ڈیفالٹ کو کامیاب بنانے کے اقدامات
– روپے کی شرح کا انجماد-شرح تبادلہ حکومت مقر رکرے جیسا 1948 ءسے 1991ء تک کیا جا تا تھا۔
– درآمدی اجازت (import licencing) صرف تیل، توانائی اور مشینری تک محدود کی جائے۔
آئی ایم ایف معاہدہ کی حتمی منسوخی اور بین الاقوامی سودی مارکیٹوں (Financial Markets )سے مکمل علیحدگی۔