قیامِ پاکستان :ہم نے بحیثیت قوم اپنے رب سے بدعہدی کی
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں یوم آزادی کے حوالے سے
تقریب سے مدیر ’البرہان‘کا خطاب
پنجا ب یونیورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامیہ کے طلبہ وطالبات نے پاکستان کی پلوٹینم جوبلی کے حوالے سے ایک مذاکرہ رکھا جس میںانہوں نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا کہ پاکستان جن مقاصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، ان کے حصول میں کامیابی ہوئی ہے یا نہیں؟ مولانازاہد الراشدی صاحب اور راقم الحروف کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر راقم نے جو گفتگو کی اس کی تلخیص درج ذیل ہے:
بدعہدی اور وعدہ خلافی اگرفرد کی طرف سے بھی ہو تو وہ بہت بڑا گناہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے منافق کی نشانی بتایا ہے لیکن اگر کوئی قوم اجتماعی حیثیت میں وعدہ خلافی اور بدعہدی کرے تو یہ فعل قابل معافی نہیں ہوتا بلکہ اسے اس کی سزا مل کر رہتی ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا کہ ؎
فِطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گُناہوں کو معاف
پاکستان ہم نے بحیثیت قوم اللہ سے مانگ کر لیا تھا اور اس وقت ہم نے اللہ سے یہ وعدہ کیا تھا اور یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ ہم اسے اسلام کا گہوارہ بنائیں گے۔ حضرت قائداعظم کے بیسیوں اقوال اور تقریریں اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے تحریک پاکستان کے قائد کی حیثیت سے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا، لیکن پاکستان بن جانے کے بعد ہم نے بحیثیت قوم اپنے عہد سے غداری کی اور آج پاکستان میں عملاً اسلام کی بجائے مغربی فکروتہذیب کے اصول واقدارغالب ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام، ہمارا معاشی نظام، عدالتی نظام، تعلیمی نظام سب مغرب زدہ ہیں اور اسلامی تعلیمات اور تقاضوں پر پورا نہیں ا ترتے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اجتماعی توبہ کریں اور اپنے اس طرز عمل کو بدلیں۔
ہم چونکہ اس وقت ایک یونیورسٹی میں بیٹھے یہ باتیں کر رہے ہیں اور یونیورسٹیاں تدریس کے ساتھ تحقیق کا مرکز بھی ہوتی ہیں لہٰذا شعبہ علوم اسلامیہ کے اساتذہ اور طلبہ کو اس پر ریسرچ کرنی چاہیے کہ ہماری اس اجتماعی اور قومی ناکامی کے اسباب وعِلل کیا ہیں ؟ ہماری سیاسی قیادت اپنے مزعومہ آدرشوں کے حصول میں کیوں ناکام ہوئی اور ہماری دینی قیادت ان کی اصلاح میں کیوں کامیاب نہ ہوسکی؟ نہ صرف ہماری دینی سیاسی جماعتیں اس ملک کو ایک صحیح اسلامی ریاست بنانے میں ناکام ہوئیں بلکہ ہماری مساجد ومدارس اور اصلاحی وتبلیغی جماعتیں بھی ڈیلیور نہیں کرسکیں ورنہ آج ہمارا معاشرہ اخلاقی بحران کا شکار نہ ہوتااور لوگ دین سے دور نہ ہوتے۔