اقبال احمد(آخری قسط)
سیکولر،لبرل، سوشلسٹ اور ملحد استعمار کا پاکستان
سوشل ڈیموکریٹ استعماری نظام کے ہمیشہ باج گزار رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک مدت سے پاکستانی سوشل ڈیموکریٹ مفکرین اور جماعتوں کو امریکی اعانت حاصل ہے۔ اقبال پاکستان میں امریکی گھس بیٹھا تھا۔{ FR 11531 }پاکستان آنے کے بعد سے اپنی موت تک وہ یہی کوشش کرتارہا کہ پاکستانی پالیسی سازی کو امریکی علاقائی حکمت کے اہداف کے حصول کاذریعہ بنا دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک اہم ضرورت یہ تھی کہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو مسخ اورمجروح کیا جائے اور قیام پاکستان کی تحریک کو ایک معمولی قوم پرستانہ سرمایہ دارانہ تحریک کے طور پر پیش کیا جائے جس کا غلبۂ دین کی امنگ سےکوئی واسطہ نہیں۔اقبال احمد کہتا ہے کہ جناح صاحب نے معاشی ترقی اور سرمایہ د ارانہ عدل کے حصول، قدیم روایات سے چھٹکارہ پانے اور ایک تنویری مستقبل کے فروغ کے لیے تحریک پاکستان چلائی جس کا غلبۂ دین سے کوئی واسطہ نہیں۔ شہیدِ جہادِ افغانستان ضیاء الحق کے دور سے اس چیز کو چھپانے کے لیے پاکستانی نصاب تعلیم جھوٹی روایات گھڑ رہا ہے جس سے مذہبی جنون اور نفرتیں پرورش پارہی ہیں۔بقول اقبال احمد جناح صاحب ایک کٹردہریہ (Secularist)تھے اور علما کی عظیم اکثریت نے تحریک پاکستان کی شدید مخالف کی۔ پاکستانی نصاب کی تبدیلی اور اسے سیکولر بنانے (Secularization)کی شدید ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی ادارہ یو ایس ایڈ{ FR 11600 } ہر سال لاکھوں ڈالرخرچ کرتا ہے۔
اقبال احمد کہتا ہے کہ ہندوستان کے مسلم عوام نے جناح صاحب کا ساتھ اس لیے دیا کہ وہ شاہ ولی اللہ،سیداحمد شہید اور علی برادران رحمہم اللہ کے نظریات کو ردّ کرچکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس دور میں غلبۂ دین ناممکن ہے اور جہاد، جیسا کہ غلام احمد قادیانی ثابت کرچکا تھا، نہ ممکن ہے اورنہ لازم۔ لہٰذا انہوں نے جناح جیسے دہریہ، ریشنل یعنی خود غرض ،ماڈرن اور اسلامی طرز حیات کو ترک کرنے والے قائد کی آواز پر لبیک کہا۔ جناح صاحب اسلامی اصطلاحات (Symbols) کو عوامی تحریک پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن وہ ایک دہریہ، ماڈرن ریاست کے قیام کے حامی تھے۔ جناح صاحب ایک منافق تھے اور ان کی اس منافقت کو پوری قوم نے سراہا کیوں کہ پوری مسلم قوم منافق ہوگئی تھی۔ جناح صاحب کے خلاف اس قسم کی دشنام طرازی کئی سیکولرسٹوں نے کی ہے جن میں اقبال کے علاوہ عائشہ جلال، سعد خیری ،زیڈ ایچ زیدی اور ایچ ایم شیروانی شامل ہیں۔
پاکستانی ریاستی نظام میں شکست وریخت اقبال احمد کے مطابق ماڈرن ازم کو فروغ دینے والی پالیسیوں کے نہ ہونے یا ناکامی ہونے کے باعث ہے۔ ۷۱۔۱۹۷۰ء میں اقبال احمد عوامی لیگ کا پرجوش حامی اور پاکستان کو دولخت کرنے کی کوشش کا شدید حمایتی تھا اور عالمی استعماری میڈیا میں اس ادا کی خوب پذیرائی کی گئی { FR 11533 } اور بھارت میں بھی وہ خوب مقبول ہوا{ FR 11534 }اقبال احمد کے مطابق لبرل اور سوشل حقوق کی عدم فراہمی پاکستان کو ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل کر رہی ہے۔ اپنی امریکی نوازی کو فروغ دینے کے لیے اورامریکن دفترخارجہ میں اپنی ساکھ بڑھانے کے لیے اقبال نے ۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۷ء تک بھٹو حکومت کی مخالفت کی (اس کے باوجود کہ اس دور میںوہ اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتا تھا)۔
اقبال احمد تسلیم کرتا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی فاشسٹ حکومتو ں کی سرپرستی کرتی ہے لیکن اس کی وجہ تزویراتی (Strategic)اور علاقائی توازنِ امن کو فروغ دینا ہے۔ اس کے باوجود اقبال احمد کے مطابق امریکی خارجہ پالیسی دوررس (Long term)امکانات پر نظررکھتی مثلاً بھٹو نے ہندوستان سے مصالحت کرکے اور بنگلہ دیش کو تسلیم کرکے امریکی اثرورسوخ کو تقویت دینے کے لیے جو امکانات جنوبی ایشیا میں پیدا کیے ہیں ان سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا گو کہ اقبال احمد امریکہ کو یاد دلاتا ہے کہ بھٹو کا ناقابل معافی جرم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا ہے۔ لیکن امریکہ کا اصل مفاد اس میں ہے کہ پاکستان میں فاشزم کے فروغ کار حجان ختم کیا جائے اور پاکستان کو ایک لبرل یا سوشلسٹ ڈیموکریٹک سرمایہ دارانہ ر یاست بنادیا جائے۔
پاکستان میں ایک سوشل ڈیموکریٹ سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کا قیام دشوار ہے کیونکہ ریاستی اشرافیہ کی بالادستی کو جواز(Iigitimacy)حاصل نہیں۔ بقول اقبال احمد تحریک پاکستان سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد ایسا قومی نظریہ تشکیل نہ دیا جا سکا جو سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کو حاکموں کی ذمہ داری بنادے،بقول اقبال احمد جب ایک مسلمان ایک اسلامی ریاست کے قیام کامطالبہ کرتا ہے تو وہ دراصل آزادی ،ترقی اور سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے، اپنے ہیومن رائٹس اور سوشل رائٹس کا مطالبہ کرتا ہے۔ چونکہ پاکستانی حکومتوں نے سرمایہ دارانہ عدل، آزادی اور رائٹس فراہم نہیں کیے لہٰذا ان کو عوام سے کوئی حکومتی جواز (Governing Ligitimacy)حاصل نہیں ہوا۔بقول اقبال احمد ایوب خان کو اس بات کا احساس تھا کہ لوگوں کا اسلام پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے اس لیے اس نے ۱۹۶۲ء میں جو دستور دیا اس میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ نہیں گردانا گیا لیکن ایوب خان، بھٹو اور ضیاء الحق نے جن نظریات کا پرچار کیا،{ FR 11535 } ان میں کوئی حکومتی جواز فراہم نہیں کر سکا کیوں کہ حکومت سرمایہ دارانہ عدل، ترقی اور آزادی کو عوام کے لیے فراہم نہ کرسکی۔
حکومتی جواز (Governing Ligitimacy)کی عدم موجودگی اور سرمایہ دارانہ عدل اورآزادی کی عدم فراہمی کی اصل وجہ اقبال احمد کے مطابق فوج اور بیورو کریسی کی ریاستی نظام میں بالادستی ہے۔وہ بھٹو پرالزام لگاتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں اس کو موقع ملا کہ وہ فوج کو کمزوراور بے دست وپا کردے لیکن بھٹو نے یہ نادرموقع گنوا دیا۔ بقول اقبال احمد بھٹو کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے ریاستی بیورو کریسی کو کمزور کیا۔ بیوروکریسی پاکستانی ریاست اورمعاشرہ کومہذب بنانے والی سب سے اہم قوت ہے۔ بقول اقبال احمد پاکستان کے وجود اور اس کی سالمیت کوشدیدخطرہ ہے{ FR 11536 } اور اس کا سبب ریاستی مرکزیت (State Centralization)ور سندھیوں اور بلوچوں کو سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم کرنا ہے ۔۱۹۸۰ء میں اقبال نے پیش گوئی کی کہ پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پرکھڑی ہے۔ اس معاشی تباہی کا ذمہ دار اقبال احمد نے بھٹو کو ٹھہرایا۔بقول اقبال احمد ، بھٹو نے ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقہ کو (جسے وہ Enterpreneur Class کہتا ہے)کچل دیا اور بھٹو کو فنانشل اور صنعتی شعبوں کی قومیانے کی پالیسی ملک کے لیے نہایت مضر ثابت ہوئی۔بیشتر سوشل ڈیموکریٹوں کی طرح اقبال بھی ریاستی اورنجی سرمایہ کاروں میں تعاون کو فروغ دینے کاحامی ہے وہ نجی سرمایہ کاری کو ختم کرنے کے خلاف ہے۔ { FR 11537 }
سوشل ڈیموکریٹ فطری طورپر استعمارکے حلیف ہوتے ہیں۔{ FR 11538 } اقبال احمد تو پاکستان آیا ہی امریکی استعماری مقاصد کو فروغ دینے کے لیے تھا۔ یہ بات اس مہم سے واضح ہوگئی جو اس نے اور اس کے آغاخانی داماد پرویز ہود بھائی نے ۹۸۔۱۹۹۷ء میں پاکستان کی نیوکلیئر پالیسی کے خلاف چلائی۔ اقبال نے پاکستان کو جوابی نیوکلیئر دھماکہ کرنے سے روکنے کے لیے جو دلیلیں دیں ان کی تلخیص حسب ذیل ہے:
نیوکلیئرہتھیاروں کا حصول بقول اقبال احمد قومی صلاحیت میں اضافہ کا سبب نہیں بنتا۔ اصل قوت تو معاشی، مواصلاتی اور علمیاتی ہے۔ پاکستانی حکام کو یہ بات سمجھ لیناچاہیے کہ دور حاضرمیں نیوکلیئر ہتھیاررکھنے والے ممالک اصل میں طاقت ورنہیں ہوتے۔عالمی سطح پرامریکہ کی غیر مشروط بالادستی کا اس کے نیوکلیئر قوت ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکہ خوب جانتا ہے کہ نیوکلیئر ہتھیار کبھی استعمال نہیں کیے جاسکتے اور نہ امریکہ ہیروشیماکی ہول ناک تباہی کے بعد دوبارہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا تصور کرسکتا ہے ۔کیوبا اور ویت نام نے امریکہ کوعسکری شکست دی حالانکہ وہ ایک نیوکلیئر قوت ہے لیکن کیوبا اور ویت نام{ FR 11539 } بغیر نیوکلیئرقوت ہونے کے تیزی سے ترقی کرتی رہیں{ FR 11540 } اور اسرائیل نے جونیوکلیئر ہتھیاروں کے انبار لگا لیے ہیں اس سے اس کی قوت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔جاپان جس کے پاس نیوکلیئر ہتھیار نہیں ہیں چین سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔{ FR 11541 } نیوکلیئرتجربہ کرکے بھارت نے اپنی علاقائی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس سے علاقائی عسکری توازن میں کوئی فرق نہیں پڑا، نہ چین کے مابین نہ پاکستان کے مابین { FR 11542 }۔ نیوکلیئر دھماکے کے نتیجے میں ہندوستان پر جوپابندیاں لگائی گئی ہیںاس کے نتیجے میں معاشی ترقی کی رفتار سست ہو جائے گی اور بھارت کساد بازاری کا شکار ہو جائے گا۔{ FR 11543 }
پاکستان کو ہرگز بے نظیر بھٹو اور قاضی حسین احمد جیسے مطلب پرست سیاست دانوں کی بات نہیں ماننی چاہیے اور ہرگز جوابی نیوکلیئردھماکہ نہیں کرناچاہیے۔اگر پاکستان نے جوابی نیوکلیئر تجربہ کیا تو عالمی مذمت، جس کا آج بھارت کو سامنا ہے، اس کا رخ پاکستان کی طرف کہیں زیادہ ہوگا۔ ہمیں نیوکلیئر مخالفت کی عالمی لہر سے فائدہ اٹھا کر بھارت پردبائو ڈالنا چاہیے { FR 11544 } اور اس طرح ہمیں جو عالمی امدادیا بھیک (Foreign aid)مل رہی ہے اس میں اضافہ ہو جائے گا ۔پاکستان کو اس بات کا احساس ہوناچاہیے کہ بھارتی نیوکلیئر دھماکے کے نتیجے میں اس کی دفاعی صلاحیت (Deterence Capability)بالکل متاثر نہیں ہوگی۔{ FR 11545 } ہم کسی حالت میں بھی ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور پاکستان کو ہتھیاروں کی دوڑ میں شرکت سے گریز کرناچاہیے۔اس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔پاکستان کو بھارت سے تزویری مساوات (Strategic Equivalance) کا خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ پاکستان کبھی بھی بھارت کو عسکری شکست نہیں دے سکتا۔ پاکستانی دفاع عالمی استعماربالخصوص امریکہ کی معاشی اور عسکری قوت کو شکست نہیں دے سکتا۔ پاکستانی دفاع عالمی استعماربالخصوص امریکہ کی معاشی اورعسکری امداد کے حصول پر منحصر ہے۔{ FR 11546 }
نیوکلیئر دھماکے کے دو ہفتے بعد اقبال احمد نےاس کی شدید مذمت کی۔ اقبال کہتا ہے کہ پاکستان نے نیوکلیئر دھماکہ کرکے ہندوستان سے پرامن مشاورت کا راستہ ترک کردیا ہے اور اب پاکستان بھارت میں وحشیانہ دہشت گردی پر کمر بستہ نظرآتاہے۔وہ امریکہ سے اپیل کرتا ہے کہ جنوبی ایشیا کو نیوکلیئر جنگ کے خطرے سے بچائے اور روایتی جنگ (Conventional war)کا جو خطرہ بڑھ گیاہے اس کو پاکستان پر معاشی پابندیاں (Sanctions)عائد کرکے کم کرے۔ پاکستان کو اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو اسلامی دنیا کو مہیا نہیں کرنا چاہیے۔نیوکلیئردھماکہ کے فوراً بعد حکومت نے ملک کے تحفظ کے لیے جو احکامات جاری کیے اقبال ان کی شدید مخالفت کرتاہے اور کہتا ہے کہ ان کو فوراً منسوخ کیا جائے بقول اقبال ان اقدامات سے ظاہر ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ لوگوں کے ہیومن رائٹس کو معطل کرکےہی محفوظ کیا جا سکتا ہے اور نیوکلیئر پیش رفت پاکستان کو فاشسٹ ریاست بنانے کی طرف لے جانے والا قدم ہے۔
اقبال احمد اپنے آپ کو اشتراکی اور مارکسسٹ کہتا تھا لیکن اس اشتراکی مارکسسٹ کے مطابق نواز شریف حکومت کا سب سے بڑا جرم زرمبادلہ کومنجمد کرکے روپیوں میں تبدیل کرنا تھا۔ یہ مارکسسٹ اشتراکی سرمایہ کاروں پرروا رکھے گئے ا س ’’ظلم عظیم‘‘کے خلاف چیخ اٹھتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ یہ اکائونٹس فوراً ڈالر میں تبدیل کیے جائیں اوران پر سے تمام پابندیاں فوراً اٹھالی جائیں۔
استعمار کی خدمت کیسے ہو؟
اقبال احمد مسلم دنیا کو استعمار کا باج گزار بنانا چاہتا تھا۔ وہ سرمایہ دارانہ عدل اورجمہوریت کے فروغ کا خواہاں تھا۔ مسلم معاشرہ کا ماضی بقول اقبال احمد شرمناک ہے۔ قدامت پرست، دقیانوسی اور منجمد ہے جو سرمایہ دارانہ نظام سے جبراً پیوست کردیاگیا ہے۔مسلم دنیا کے عوام اپنے حال سے بیزار ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے ماضی کی طرف لوٹنے کا خواب دیکھتے ہیں جو کبھی موجود نہ تھا۔ دور رسالت مآب ﷺ اور دورِ خلفاء راشدین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) ایک دیومالائی افسانے کے سوا کچھ نہیں۔عوام کو اپنے آپ کو ا س دیومالائی افسانے کے سحر سے نکالنا آنا چاہیےاوراپنے حال کو اس ماضی سے اخذ کرنا اور جانچنا غیر ریشنل (یعنی غیر خود غرضانہ)اقدار اور معیارات کی بنیاد پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ان کو اپنے مستقبل کی تعمیر کی جستجو کرنی چاہیے جس میں وہ مادی آسائشوں سے محظوظ ہو سکیں۔ انقلاب ایران ایک نہایت مایوس کن عمل ہے { FR 11547 } کیوں کہ وہ ایک فرسودہ دیو مالائی افسانہ کو زندہ کرنے کے لیے برپا کیا گیا ہے، مادی تعمیرِ حیات کے لیے نہیں۔ حقیقت میں ایران کارجعت پسند انقلاب سرمایہ دارانہ ظلم کے خلاف بغاوت نہیں اور سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی کوئی خواہش نہیں ر کھتا۔ وہ ایک ایسے ماضی کو زندہ کرناچاہتا ہے جہاں سرمایہ دارانہ عدل ،ریشنلٹی ، آزادی اور ترقی کے کوئی امکانات موجود نہ تھے۔ایرانی انقلابی محض باغی تھے۔روسی، چینی اور ویت نامیوں کی طرح حقیقی انقلابی نہ تھے۔ ان سب اصلی انقلابیوں کی جدوجہد سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدّوجہد رہی۔ روایتی اسلامی معاشرہ قنوطی ہوتا ہے۔ لوگ تقدیر پرایمان رکھتے ہیں اور فطرت کو مسخر کرنے کی جدوجہد نہیں کرتے بلکہ عبادات کے ذریعے خداکو راضی کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔خود خدا (Autonomous)بننے کی کوئی خواہش ان میں نہیں ہوتی۔ وہ نہیں جانتے کہ اصل عدل تو سرمایہ دارانہ عدل ہے جس کے قیام کے ذریعے لوگ ریشنلٹی (خود غرضی )کے نور(Enlightenment)سے سرشار ہو کرآزادی، خود اختیاریت اور ترقی حاصل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی عوامی بغاوتیں لازماً ناکام ہوتی ہیں، وہ سرمایہ دارانہ طرز (Life Style)اور نظام زندگی قائم نہیں کرسکتیں{ FR 11548 }۔اسلامی باغی نظاماتی تبدیلی یعنی روایتی اسلامی معاشرت اور ریاست سے سرمایہ دارانہ معاشرت اور ریاست کی طرف مراجعت اس لیے نہیں کرتے کیوں کہ وہ اسلامی اقدار کو ترک کرکے آزادی،خود اختیاریت اورترقی کی اقدار کو قبول نہیں کرتے۔ وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ اسلام ریاستی نظام کی اساس یعنی خلافت کا ادارہ ہی ظلم کے پھیلنے کااصل ذمہ دار ہے۔
آج مسلم دنیا میں سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنا ممکن ہے۔ مسلم دنیا کی تجارت اور معیشت عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہوگئی ہے۔جدید ٹیکنالوجی پرانے معاشی اور معاشرتی نظام میں دخیل ہوگئی ہے اور زمین اور افرادی قوت (Labour)بڑھوتری سرمایہ کی گردش کا ذریعہ بن گئے ہیں۔{ FR 11549 }آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سرمایہ دارانہ انقلابی جماعتیں اسلام مخالف نظاماتی تعبیر برپا کرنے کی جدوجہد کریں۔ان کے مطالبات اجرتوں میں اضافہ وغیرہ تک محدود نہ ہوں بلکہ وہ روایتی معاشرتی اور ریاستی نظام کے اقداری جواز کو چیلنج کریں۔قدیم روایات اور ادارے کمزورپڑ رہے ہیں اوراستعماری قوتیں ان کو کمزورتر کرنے میں سرمایہ دارانہ انقلابیوں کی فطری حلیف ہیں۔ سرمایہ دارانہ انقلابی اور سامراجیت مل کر اسلامی روایات اور اداروں کو عوام کی نظر میں غیرمعتبر اور بلاجواز ثابت کررہے ہیں۔ فنانشل مارکیٹوں کے پھیلائو کے نتیجے میں حلال رزق کمانا مشکل ہوتا جارہا ہے اور روایتی معاشی خود کفالت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ مسلم دنیا میں دھیرے دھیرے روایتی اسلامی معاشرت ناپید ہوتی جارہی ہے۔ یہ سب تبدیلیاں سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کے امکانات روشن کر رہی ہیں۔
ذہین طبقات (Intellectuals)اسلام سے نفرت کرنے لگے ہیں اور ریشنل (خود غرض)ہوتے جارہے ہیں۔ عوا م میں بھی روایتی معاشرتی اور سیاسی قائدین کے خلاف غصہ کی لہر دوڑ رہی ہے اور وہ کھلم کھلا علمائے کرام اور صوفیائے عظام کو گالیاں دینے لگے ہیں۔لوگ کثیرالجہتی کے قائل ہوتے ہیں جا رہے ہیں۔وہ اسلام کو الحق نہیں سمجھتے بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ حق کے کئی اظہار ممکن ہیں اور اصل حق تو یہ ہے کہ انسان خود مختار ہے، خود بخود تخلیق ہوا ہے اور مستقل سرمایہ کی بڑھوتری یعنی آزادی کے فروغ کی جدوجہد میں زندگی کی معنویت پاتا ہے۔ اصل حق ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا الْاِنْسَان ‘‘ہے اور’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ)‘‘پرایمان لانا ایک غیرریشنل عمل ہے۔اسلامی عقائد اور اسلامی ادارتی فرماں روائی کے نتیجے میں نہ سرمایہ دارانہ عدل قائم کیا جا سکتا اور نہ ترقی وآزادی کا فروغ ممکن ہے۔سرمایہ دارانہ انقلابیوں کو مسلمانوں کو امید دلانی چاہیے کہ وہ خود اپنا روشن مستقبل اپنی سرمایہ دارانہ جدوجہد سے تعمیر کرسکتے ہیں۔انہیں خدا پر نہیں بلکہ خود اپنے ارادے اور اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔لوگوں کے فطری حرص،حسد،لالچ اور طمع کو ایسی ریشنلٹی کے ذریعے منظم کرنا چاہیے جو سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی اقتدار کا جواز فراہم کرسکے۔ اقبال احمد توقع رکھتا ہے کہ جیسے جیسے اسلامی اقدار اور نظام قوت اپنا جواز کھوتا جائے گاویسے ویسے ملحدانہ نظریات بالخصوص سوشل ڈیموکریسی عام مقبولیت حاصل کرےگی اور ان نظریات پر ایمان لا کر لوگ ریشنل (یعنی خود غرض) بن جائیں گے اور سرمایہ دارانہ اہداف یعنی فروغِ آزادی اور بڑھوتریٔ سرمایہ کی جدوجہد میں لگ جائیں گے۔وہ ا سلام کو ترک اس لیے کریںگے کہ اسلام خواہشات نفسانی کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
اقبال احمد کوامید ہے کہ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہو گا مذہبی بنیادوں پر اجتماعیتیں کمزور پڑیں گی اور گروہی مادی مفادات کے حصول کے لیے نئی اجتماعیتیں قائم ہوں گی۔ مسلم دنیا میں جیسے جیسے مذہبی اجتماعیتیں تحلیل ہوں گی ویسے ویسے دقیانوسی تحریکات (Reactionary Movements)کمزور پڑیں گی اور سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کے مواقع روشن سے روشن تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ مسلم د نیا میں کئی استعمار نواز سرمایہ دارانہ اسلام دشمن حکومتیں بھی قائم ہیں اور یہ حکومتیں مستقلاً جارحانہ انداز میں مذہبی اسلامی معاشرت کو منہدم اوراسلامی اقدار کی تذلیل کریں گی۔ اس ضمن میں اقبال احمد کے مطابق سب سے حوصلہ افزا مثال ترکی میں کمال اتاترک اور الجزائر میں بن بیلا کی حکومت کی ہے۔اقبال احمد کے مطابق اسلامی دقیانوسیت کو شکست دینے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:
۱۔ سیکولر سرمایہ دارانہ نظریہ کا فروغ
۲۔ ایسی سیکولر قیادت کا عروج جو ہمت کے ساتھ اس سرمایہ دارانہ نظریہ کی اشاعت وتبلیغ کرے۔
۳۔ یہ نظریہ اور یہ قیادت جمہوریت سے وابستگی کو فروغ دے، آمرانہ نہ ہو۔
۴۔ ایسی ادارتی صف بندی کی جائے جو معاشرتی جمہوریت کو ا ستحکام بخشے اور قائدین عوام کے سامنے مستقل طور پر جواب دہ ہوں۔
۵۔ اسلام مخالف سیکولر نظریہ ملکی، ثقافتی اور تاریخی روایات کو اس طرح مسخ کرے کہ سیکولر نظریہ عوام کی نظر میں اجنبی نہ ہو بلکہ اس کو مقامی لوک ورثہ کے طور پر قبول کیا جائے۔{ FR 11550 }
ان اقدامات کے ذریعے وہ تمام فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام اور ترقی کی وجہ سے مسلم دنیا کے لیے ممکن الحصول ہیں۔ مسلم دنیا کو آزادی اور ترقی دونوں حاصل ہو سکتی ہیں ۔شرط صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کو ترک کردے اورمسلم نہ رہے۔ اقبال احمد اسلام دشمن تھا۔تمام سوشل ڈیموکریٹ اسلام دشمن نہیں ہوتے چونکہ سوشل ڈیموکریسی تنویری علمیت کی ایک تعبیر ہے لہٰذا بیش تر سوشل ڈیموکریٹ مذہب کو علم نہیں مانتے (مذہب کو محض احساس کے اظہار کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں)۔مسلم دنیا میں ایسے سوشل ڈیموکریٹس اور لبرل مفکرین بھی مدت سے پائے جاتے ہیں جو تحریک تنویر اور تحریک نشاۃ ثانیہ کی جڑیں مسلم اسپین اور معتزلہ فرقہ کی فکر میں پاتے ہیں۔ انہوں نے لبرل اور سوشل ڈیموکریٹک سرمایہ داری کی اسلام کاری کی کوشش کی ہے؟ لیکن اقبال ان مفکرین میں سے نہیں ہے۔وہ اسلام کا پکا اور کٹر دشمن تھا یہاں تک کہ جیسا کہ اس کے داماد نے شہادت دی ہے کہ مرتے وقت بھی اس کو خدا یا د نہ آیا۔ ایک اور مرتد اورملحد اعجازاحمد { FR 11551 } اقبال کی موت کے نوحہ میں لکھتا ہے کہ اقبال فخریہ کہا کرتا تھا کہ ’’میں نے زندگی میں کبھی نماز نہیں پڑھی‘‘۔ اپنی تحریروں میں جگہ جگہ اس نے صوفیائے کرام کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ جس اسلام کی صوفیہ تعلیم دیتے ہیں وہ روحانی ترفع اور تقدس سے مالامال ہے لیکن اقبال احمد کی اپنی زندگی میں کسی روحانیت کاشائبہ تک نہ تھا۔ امریکی تخریب کاروں نے مدت سے یہ کوشش کی ہے کہ صوفیاء کرام کومجاہدین اسلام سے نبردآزمائی پرآمادہ کریں اور عوام میں یہ بات عام کریں کہ شریعت کی اتباع کی تعلیم راسخ العقیدہ علماء دیتے ہیں لیکن صوفیائے کرام اس تعبیرکو رد کرتے ہیں اور وہ معتدل سیکولر (Secular)اور کثیر الجہتی(Pluralist)ہمہ اوست (Pantheistic) اسلام کے قائل ہیں ، یہ بالکل جھوٹ اورسراسر بہتان ہے۔ ملحدین اور سیکولرسٹ کسی ایک ا یسے صوفی بزرگ کا نام نہیں لے سکتے جس نے جہاد کو حرام قرار دیا ہو۔ اس کے برعکس بیشتر مجددین صوفیاء ہیں اور عموماً صوفیائے کرام ہی مجاہدین اسلام کی قیادت فرماتے رہےہیں۔