اقبال کا فلسفۂ تعلیم
’’ہماری تعلیم دماغی ترقی کے لیے کوئی ذریعہ مہیا نہیں کرتی اور نہ وسیع النظربناتی ہے۔ہر علم کی تعلیم اس قد ر ناقص دی جاتی ہے کہ علم سے متعارف بھی نہیں ہو سکتے۔ روحانیت کی طرف ترغیب تو کیا ہوتی مذہب ہم سے دور ہو جاتاہے۔‘‘(اقبال)
برصغیر پاک وہند میں جتنا کچھ علامہ اقبال اور اس کے کلام وپیام کے متعلق لکھا گیا ہے اتناشاید ہی آج تک کسی اور فرد واحدکے بارے میں لکھا گیا ہو لیکن اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو جوکچھ اقبال کے متعلق لکھا گیا ہے اس کی شخصیت، اس کا فن،اس کا پیغام اس سے کہیں زیادہ لکھے جانے کے متقاضی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لکھنے والوں نے محض سطح پر اٹھنے والی لہروں کا مشاہدہ کرکے اپنے اپنے قیاس کے مطابق اس بحرذخارکااحاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جو ان اوپری لہروں کے نیچے اپنے دامن میں علم وحکمت کے بے بہا موتی سمیٹتے ہوئے ایک ابدی کش مکش میں مصروف ہے۔اور جس طرح معمولی روشنی تک شعاعیں سمندرکی تہہ تک پہنچنے میں ہماری رہنمائی نہیں کرسکتیں اسی طر ح اقبال کے کلام کی تہہ تک پہنچنے میں محض علم ظاہری ہماری کامیاب معاونت نہیں کر سکتا۔
اقبال کے متعلق لکھنے والوں نے سب سے زیادہ اس کے فلسفۂ خودی کی توضیح وتشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ لوگوں نے زمان ومکان سے متعلق اس کے تصورات پر بھی بحث کی ہے لیکن تصور زمان ومکان چونکہ خالصتاًعلمی اور فلسفیانہ موضوع ہے اس لیے بحث کرنے والوں نے عام طور پر اس میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔اقبال کی عام اصطلاحات مثلاً مرد مومن، قلندر،سکندر،حکیم، کلیم، شاہین عقاب وغیرہ پر بھی لوگوں نے بہت کچھ زور قلم صرف کیا ہے اور اس کے فوق البشر کے متعلق بھی طویل بحثیں کی ہیں مگرجس پہلو پر سب سے کم توجہ صرف کی گئی ہےوہ اس کا فلسفۂ تعلیم ہے۔کچھ عرصہ پہلے اقبال کے متعلق خلیفہ عبدالحکیم مرحوم کی ایک فاضلانہ تصنیف’’فکر اقبال‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ان بزرگوں میں سے ایک تھے جنہیں اقبال کے ساتھ بیٹھنے کے مواقع بکثرت نصیب ہوئے۔وہ خود بھی ایک فلسفی تھے اور ایک نامورماہر تعلیم بھی۔توقع تھی کہ ان کے ہاں اس موضوع پر بہت کچھ ملے گا لیکن انہوں نے بھی اقبال کے نظریۂ تعلیم پر کھل کر بحث نہیں کی ۔کہیں کہیں محض اشارات دیئے ہیں۔{ FR 11552 }
اسی زمانے میں ایک کتاب ’’نقوشِ اقبال‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جو آقائے رازی اور علامہ عرشی کے مقالات پر مشتمل تھی۔ آقائے رازی گورنمنٹ کالج لاہور میں ادبیات فارسی کے پروفیسر تھے اس لیے تعلیم سے براہ راست متعلق تھے لیکن اقبال کے فلسفۂ تعلیم کے بارے میں وہ بھی خاموش ہیں۔اقبال کے فکروفن کے متعلق ایک نہایت عمدہ ،گراں بہا اور قابل قدر تصنیف ڈاکٹر یوسف حسین خان کی ’’روحِ اقبال‘‘ہے جو اپنے اعلیٰ معیار تنقید کی بناپر برصغیر کے تمام علمی حلقوں میں بڑی قدرومنزلت حاصل کرچکی ہے۔ اس کتاب میں ’’اقبال اور آرٹ‘‘ ، ’’اقبال کا فلسفۂ تمدن‘‘،’’اقبال کے مذہبی اور مابعد الطبیعیاتی تصورات‘‘اور ’’تدبر اور زمانہ‘‘ اور ’’مسئلہ جبروقدر‘‘کے بنیادی موضوعات کے تحت بہت سے ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیںمثلاً ’’آرٹ اور زندگی‘‘ ،’مقاصد آفرینی‘، ’قصہ آدم‘،’اجتماعی خودی‘،’حیاتِ اجتماعی‘،’مملکت اور تمدن‘،’نظام معاشری‘ ،’خودی اور خدا‘وغیرہ۔لیکن تعلیم کے بارے میں کوئی عنوان نہیںہے۔
نظریۂ تعلیم سے ناقد ین کے اس عمومی صَرف نظر کے لیے ہم ان پر کوئی الزام بھی نہیں دھر سکتے کیونکہ اقبال نے خود تعلیم کے متعلق براہ راست بہت کم کہا ہے ۔نظم کے علاوہ اس کی نثر خصوصاً ’’تشکیل جدید فکر اسلامی‘‘میں بھی تعلیم اور فلسفہ تعلیم کے بارے میں بہت ہی کم مواد ملتا ہے،لہٰذا ہر ناقد کی نظر ان موضوعات کی طرف اٹھتی ہے جن پر انہوں نے بہت کچھ کہا مثلاً فلسفۂ خودی ، زمان ومکان، ایمان ،ایقان،حیاتِ اجتماعی وغیرہ۔
اگر ہم اس امرکو تسلیم کرلیں کہ اقبال ایک فلسفۂ حیات کے داعی تھے اور نظری اختلافات کے لیے تمام ترگنجائش کے باوجود یہ فلسفۂ حیات جامع اورمکمل ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ تعلیم وتربیت کے بارے میں بھی ان کے خیالات واضح اور مکمل تھے کیونکہ کوئی فلسفۂ حیات بھی تعلیم وتربیت جیسے اہم اور بنیادی پہلو کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اور ہرچند کہ اقبال نے اپنی گراں مایہ تصانیف میں فلسفۂ تعلیم کو اس تفصیل سے بیان نہیں کیا جس تفصیل سے ایک ماہر تعلیم کو بیان کرناچاہیے، پھر بھی ہمیں ان کے کلام میں ا س تفصیل کے اجمالی خاکے جو اپنی جگہ بالکل واضح ہیں ضرور ملتے ہیں۔ ایک فلسفی اور شاعر سے اجمالی خاکوں سے زیادہ توقع بھی نہ رکھنی چاہیے ان خاکوں میں رنگ بھرنا ان ماہرین تعلیم کا کام ہے جو تعلیم وتربیت کے اہم قومی اور ملکی مسئلے کے تمام عملی پہلوئوں پر نظررکھتے ہیں اورجن کافریضۂ منصبی یہ ہے کہ اس بنیاد پر ملت کی تعمیروتشکیل کریں ۔ نیز اس طرح سے اپنے فلسفی شاعر کے پیش کیے ہوئے اجمالی خاکوں میں تفصیل کا رنگ بھریں اور اس طرح ایک ایسا نظام تعلیم مرتب کریں جو قومی ضرورتوں اورملی امنگوں کو مناسب پیش رفت عطا کرے۔
سترہویں صدی عیسوی میں یورپی اقوام نے اپنے ملکوں سے نکل کر تجارت اور تسخیر ممالک کے میدان میں قدم بڑھانے شروع کیے، نئی دنیا کی دریافت اوروہاں سے بے پناہ ذخائر دولت کی درآمد نے ان کے سینوں میں نئے نئے ولولے اور نئی نئی امنگیں پیدا کیں۔ اٹھارھویں صدی کے وسط تک یہ اقوام ترقی کی کئی منازل طے کر چکی تھیں۔سائنسدانوں کی نت نئی ایجادات اور سائنس کی پیش قدمی نے اہل یورپ کے ذہنی افق میں بڑی وسعت پیدا کردی تھی۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کا احساس ہو چکا تھا یا ا قبال کے ا لفاظ میں ان کی خودی بیدارہوچکی تھی اور وہ ان صلاحیتوں کو بطریق احسن بروئے کار لا رہے تھے ۔ادھر ایشیا اور افریقہ میں جہاں بیشتر علاقوں میں مسمانوں کو عددی تفوق حاصل تھا اور نیل کے ساحل سے لے کرخاک کاشغر تک اورطرابلس الغرب کے میدانوں سے لے کر ملایا اور انڈونیشیا کے سبزہ زارو ں تک تہذیبی تفوق کے مالک بھی وہی تھے ۔ان کی اقبال مندی کا سورج ڈھل رہاتھا۔مسلمان اپنی بارہ سو سالہ جدوجہد کی زندگی کے بعد گویا تھک کر سستا رہے تھے ۔تاریخ انسانی کے سٹیج پر ایک طویل عرصے تک نمایاں ترین کردار ادا کرتے رہنے کے نتیجے میں ا ن کے قوائے ذہنی وجسمانی انحطاط پذیر ہورہے تھے۔ وہ سیلِ بے کراںجو کسی زمانے میں تمام بلندیوں اور پستیوں کو روند چکا تھا بلکہ یوں کہیے کہ بلندوپست کو ایک کرچکا تھا،اب چھوٹی چوٹی ندیوں میں بٹ کر محض سبک رونغمے بکھیرنے پر قناعت کیے ہوئے تھا۔ دیارِمغرب میں عظمت واقبال کا سورج نصف النہار پر تھا اور ارضِ مشرق پر شام کے دھندلکے گہرے ہوتے چلے جارہے تھے۔ سرزمین ہند جوایران کے بعد اسلامی تہذیب وتمدن کی سب سے بڑی جولانگاہ تھی، وہاں مسلمانوں کی قوتیں منتشر ہو چکی تھیں۔ شمشیروسناں کا زمانہ ختم ہو چکا تھا اور طائوس ورباب کا دور دورہ تھا۔طائوس ورباب کے نغموں میں وہ ہمہ گیری اور بلند آہنگی مفقود ہوتی جارہی تھی جو دوصدیاں پہلے مغل دربارکا طرہ امتیاز تھی اورجس کی گونج وسط ایشیا اور مشرق قریب سے گزر کر ڈینیوب کے کناروں بلکہ اطلانتک کے سوا حل تک سنی جاتی تھی۔
زوال وانحطاط کے اس دور میں مسلمانوں کے اندر دومکاتب فکر کام کرنے لگے۔ ایک مکتب فکروہ تھا جس کی داغ بیل شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے خانوادہ پاک نے ڈالی تھی۔ دوسرا مکتب فکر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد وجود میں آیا اس کی بنیاد رکھنے والے سید احمد خان تھے۔
شاہ ولی اللہ کا مکتب فکر جدوجہد یعنی زمانہ باتونسازوتوبازمانہ ستیز کا علم بردار تھا۔اس مکتب فکرکا مرکزی نقطہ نگاہ جہاد تھا اور جہاد بھی بالسیف ۔اس مکتب فکر کے پیروفکرِاسلام میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے ۔وہ راہ خدا میں سرکٹانا اور گھر لٹاناجانتے تھے۔دشمنانِ دین سے براہ راست ٹکرانا اور شکست پر شکست کھا کر بھی ہارنہ ماننا ان کا مسلک تھا۔وہ اپنے سرکوجوخدائے وحدہ لا شریک کے سامنے جھکتا تھا،کسی اور دروازے پر جھکانےکے لیے تیار نہ تھے۔ و ہ فتح یا شہادت کے قائل تھے۔درمیانی راستہ چاہے کتنا ہی دلفریب اور پرکشش ہو،انہیں قبول نہ تھا۔
مغلیہ سلطنت کے انحطاط کے ساتھ ہی اس تحریک کاآغاز ہو چکا تھا۔تاہم تحریک کے سربراہ ہندی مسلمانوں کے انجام کا اندازہ ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے کرچکے تھے ۔ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کے ساتھ ہندی مسلمانوں کے پے درپے تصادم ہوئے اور ۱۸۵۷ء تک یہ تحریک دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور دوستوں کی کج فہمیوں کے باعث کئی زخم کھاچکی تھی۔ انگریز حکومت سیاسی وعسکری ہر دور محاذوں پر اہل ہند سے کہیں زیادہ برترتھی۔ تاہم برطانویوں نے عسکری محاذپر مسلمانوں کا زور توڑنے کے ساتھ ساتھ علمی اور تہذیبی محاذپر بھی ان کی شکست وریخت کے انتظامات کرلیے تھے۔ شکست وریخت کے اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے طریقہ تعلیم کو بدل ڈالا ۔چنانچہ ۱۸۳۵ء میں لارڈمیکالے نے جوگورنر جنرل کا ایک مشیر تھا، فارسی کی جگہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔اس مقصد کے لیے اس نے گورنرجنرل کی کونسل میں ۷مارچ ۱۸۳۵ء کو ایک ریزولیوشن منظور کرایا جس کی رو سے برطانوی ہند کی سرکاری زبان انگریزی ہوگئی۔
۱۸۵۷ء کے سانحۂ عظیم کے بعد تو مسلمانان ہند کو اپنی ہستی ہی خطرے میں نظرآنے لگی۔ انگریزوں کی نگاہ میں ہر مسلمان سرکش اور باغی تھا اس لیے اس کی سرکوبی لازمی تھی۔ اس پرآشوب دورمیں سرسید احمد خان ایک عزم مجاہدانہ لیے ہوئے آگے بڑھے اور نہ صرف مسلمانوں کی کشتیٔ حیات کو نذرطوفان ہونے سے بچا لیا بلکہ ان کے سامنے زندگی کا ایک نیالائحہ عمل بھی پیش کیا۔
سرسید احمد خان کی تحریک حقیقت پسندی پرمبنی تھی ۔وہ جان چکے تھے کہ ہر قوم کے لیے اجل یعنی ایک معیاد عمل ہے فرمان خداوندی کے مطابق اس برعظیم میں مسلمانو ں کی حاکمیت کی زندگی ختم ہو چکی ہے نیا سورج ابھر رہاہے اس لیے ڈوبتے ہوئے تاروں کاماتم کرتے رہنے یا آنکھیں موند کر نئے سورج سے انکارکرتے رہنے سے کچھ نہ بنے گا۔اس وقت مصلحت یہی ہے کہ اس نئےسورج کی تابانیوں سے استفادہ کیا جائے۔ اپنی کمزوریوں کا محاسبہ کیا جائے۔ اورنئے زمانے کے تابانیوں کو اپنے قومی وجود میں سمولینے کی جدوجہد کی جائے۔ اس مکتب فکر کی بنیاد سمجھوتے پر تھی۔ مشرق ومغرب میں سمجھوتہ ،قدیم اورجدید میں سمجھوتہ اور زمانہ باتونسازدتو بازمانہ بسازکا اصول۔ جولوگ قوموں کے عروج وزوال کے اسباب وعلل پر گہری نظر نہ رکھتے تھے، جو دماغ کی بجائے دل،معنی کی جگہ لفظ اورغوروفکر کے بدلے جذبات سے کام لینے کے علوی تھے انہیں سمجھوتے کی یہ تحریک ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے صرف موافقت نہ کرنے پر بس نہ کی۔عملی مخالفت بھی کی لیکن سمجھوتے کی اس تحریک کو کامیاب ہونا تھا ،سو ہوئی،کیونکہ واقعات وحالات تاریخی عوامل کے تابع ہوتےہیں اور جس دور میں تاریخی عوامل کا،جو تقاضا ہوتا ہے حالات اورواقعات اسی نہج پر چل نکلتے ہیں اور وہ شخصیتیں بھی جو ہمیں حالات وواقعات کا رخ موڑتی ہوئی نظرآتی ہیں، درحقیقت انہی تاریخی عوامل کے زیراثر نشوونما حاصل کرتی ہیں۔
انیسویں صدی کے اواخر تک مسلمان سمجھوتے کی اس تحریک کی طرف پوری طرح مائل ہو چکے تھے انہوں نے اپنی زندگی کے اس نئے دور کے لیے مغربی علوم اور کسی حد تک مغربی طرز معاشرت کو بھی اپنا لیا تھا۔اس کے باوجود یہاں یہ کہنا غیر ضروری ہوگا کہ دنیائے اسلام میں صرف ہندی مسلمان ہی ایسے تھے جنہو ں نے مغربی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی ملی اور قومی خصوصیات کو برقراررکھا تھاحالانکہ استیلائے مغرب کی زد سب سے زیادہ انہی پرپڑی تھی ۔اب مسلمان طلباء نہ صرف اندرون ملک انگریزی زبان اور جدید مغربی علوم کی تعلیم حاصل کرنے لگ گئے تھے بلکہ سینکڑوں نوجوانوں نے خود انگلستان کی یونیورسٹیوں میں جا کر ان علوم کی تکمیل کی۔ انہی نوجوانوں میں بہت سے ا یسے نکلے جنہوں نے آگے چل کر ہندوستانی مسلمانوں کے طرز فکرونظر پر بہت گہرا اثرڈالا۔ انہی میں سے ایک اقبال بھی تھے جن کااثر غالباً سب سے گہرا اور سب سے ز یادہ دوررس ہے اورجو ں جوں زمانہ گزرتا چلا جائے گایہ اثرزیادہ ہوتا چلاجائے گا۔
بظاہر یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ ہندوستان میں انگریزی استعمار کے سب سے بڑے حریف اور سب سے بڑے دشمن جنہوں نے اس استعمار کا مقابلہ کیا اور بالآخر اسے ختم کرکے دم لیا وہی لوگ تھے جنہوں نے سرزمین انگلستان میں تعلیم حاصل کی ۔اور اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ اس ملک میں بسر کیا تھا لیکن درحقیقت یہ چیز اصول فطرت کے عین مطابق ہے کیونکہ ہر خلیل کسی آذرکے گھر میں اور ہر موسیٰ کسی فرعون کے ہاں نشوونما پایا کرتا ہے۔ جن لوگوں نے انگریزوں کے درمیان رہ کر ان کی زندگی اور معاشرے کا نہایت قریب سے مطالعہ کیا۔وہی اس طلسم سے آزاد ہوئے جو سات ہزار میل کی دوری کے باعث عام ہندوستانیوں کی آنکھوں کے سامنے ایک نظر فریب پردہ بنا ہوا تھا، ان پر دانش مغرب کی تمام حقیقت فاش ہوگئی اور انہیں احساس ہوگیا کہ اپنی تمام ظاہری چمک کے باوجود یہ دانش نوع بشر کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں۔اقبال اسی بناپر فرماتے ہیں
عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں مَیں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیلؑ
مجھے وہ درسِ فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجابِ دلیل
عذابِ دانش حاضر آج سے باخبر ہونے کے بعد اپنے ہم قوم اور ہم وطن لوگوں کو اس عذاب کی ماہیت سے باخبر کرنا او ر اس عذاب سے بچانے کی کوشش کرنا،اقبال کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار پاگیا اوراس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کردیا۔ ان کی تمام عمرمغربی استعمار کے خلاف لڑتے لڑتے گزرگئی۔ اس استعمارنے انہیں اپنے ارادوںسے بازرکھنے کے لیے طرح طرح کے دام بھی پھیلائے لیکن وہ مرغِ بلند آشیاں جو فطرت سے عالی ہمتی کا جوہر ےلے کر آیا تھا ،وہ اس دام میں کہاں آنے والا تھا اس نے اپنے ہم صفیروں کو بھی آگاہ کیا؎
اے طائرِ لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مغربی تہذیب وتمدن اور فلسفہ وعلوم کا جن کی تمام تر بنیاد مادیت پر تھی بغور مطالعہ کرنے اور مشرقی علوم وفنون اور تہذیب وتمدن سے جن کی بنیاد روحانیت پر تھی ،مقابلہ اورموآزنہ کرنے کے بعد اقبال نے اقوام مشرق کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص ایک عملی فلسفہ حیات پیش کیا۔ یہ فلسفہ حیات شاہ ولی اللہ دہلوی کے مکتب فکر اور سرسید احمد خان کے مکتب فکر کے بین بین اعتدال کا راستہ تھا۔
مختصراً اس کی خصوصیات یہ تھیں:
۱۔ مغربی تہذیب وتمدن کے خلاف بغاوت
۲۔ اہل مغرب کی استعماریت کے خلاف عملی جدوجہد
۳۔ مغربی علو م سے بقدر ضرورت وہمت استفادہ
شاہ ولی اللہ کے مکتب فکر کے پیرو،مغربیت سے قطعاً نفرت کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے نزدیک انگریزی زبان کا پڑھنا پڑھانا بھی غلط بلکہ ناجائز تھا، سرسید سکول کے حامی نہ صرف انگریزی زبان اور یورپی علوم وفنون کے حصول کو اپنی ترقی کے لیے لازمی خیال کرتے تھے بلکہ یورپ کی مادی ترقی سے مرعوب ہو کر یورپی تہذیب وتمدن کی برتری کے بھی قائل تھے۔ یہ دونوں راستے اعتدال سے ہٹے ہوئے تھے ۔یورپی علوم وفنون کی حیثیت اپنی جگہ مسلم تھی لیکن احساس کمتری سے اس تہذیب کے سامنے ہتھیارڈال دینا بھی غلط تھا۔خدا نے علم وحکمت کو خیرکثیر کہا ہے چنانچہ اقبال نے اسی خدائی فرمان کو یاددلاتے ہوئے مسلمانوں سے کہاہے؎
گفت حکمت را خدا خیرِ کثیر
ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر
اس سلسلے میں رسول اکرم ﷺ کے ارشادات واضح ہیں۔ جب آپ حکمت کو مومن کی گمشدہ میراث کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ دینوی اورسائنسی علوم کو بھی اسی ذوق وشوق سے حاصل کیا جائے جس ذوق وشوق سے دینی علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں حصول علم انسانیت کے بہت بڑے مقاصد میں سے ا یک ہے وہاں یہ مسئلہ نہایت احتیاط طلب بھی ہے۔ علم نوربھی ہے اور حجاب بھی۔ اَلْعِلْمُ حِجَابُ الْاَکْبَرُ ایک بہت بڑی اور ٹھوس حقیقت ہے۔ عام طور پر لوگ خصوصاً ناپختہ کارنوجوان دوسری اقوام کے علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غیرشعوری طور پران کے وہ اصول حیات بھی اپناتے چلے جاتے ہیں جو انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرکے دوسروںکا صیدِزبوں بنا دیتے ہیں؎
آہ مکتب کا جوانِ گرم خوں
ساحرِ افرنگ کا صیدِ زبوں
علم کی دو بڑی شاخیں ہیں: ایک علم طاغوتی اور دوسری علم لاہوتی۔طاغوتی علم وہ ہے جو انسان کو تمرد اورسرکشی سکھاتا ہے اور لاہوتی علم وہ ہے جو اسے اس راستے سے بچاتا ہے ۔طاغوتی علم کی بدولت جب انسان اپنی معمولی سی صلاحیتوں کا مشاہدہ بھی کرتا ہے توفرط مسر ت سے جھوم اٹھتا ہے اور بے اختیار اَنَاوَلَاغَیْرِی کا نعرہ بلند کرتا ہے اور جس طرح رات کی تاریکی میں کسی ویرانے میں چمکنے والا تنہا جگنو یہ سمجھتا ہے کہ فضائے بسیط میں صرف وہی روشنی کا منبع ہے۔اسی طرح آدمی اس زعمِ باطل کا اسیر ہوجاتا ہے کہ تمام کائنات میں وہی وہ ہے۔ یہ لادینی خرد جوں جوں زیادہ پختہ کار ہوتی جاتی ہے توں توں اس کے اسیر اپنے ہی ابنائے جنس کی ہلاکت وبربادی کے سامان مہیا کرتے ہیں اور جیسے جیسے ہلاکت اور بربادی کے سامان زیادہ ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے انسان انانیت کے نشے میں زیادہ مدہوش ہوتے چلے جاتے ہیں اسی علم کے متعلق اقبال فرماتے ہیں؎
علم را بے سوز دل خوانی شر است
نور او تاریکیٔ بحر و بر است
عالمے از غازِ او کور و کبود
فرد دینش برگ ریزِ ہست و بود
بحر و دشت و کوہسار و باغ و زاغ
از بمِ طیارہ او داغ داغ
علم بے عشق است از طاغوتیاں
علم با عشق است از لاہوتیاں
(جاوید نامہ)
یعنی علم ہو لیکن باعشق ہو۔اس کاپس منظر دینی اور بنیاد روحانیت پر ہو۔اس کامقصد بنی نوع انسان کی خیر وفلاح ہو۔علم ودانش کو اگر ہم ایک پھول کھلانے والا سدا بہارپودا سمجھیں تو اس پودے کے لیے ذہن کی زمین بھی ایسی ہونی چاہیے جس میں یہ پودا تروتازہ رہ سکے اور اس کے ساتھ وہی پھول لگیں جو ذہنی اور روحانی کثافتوں کو دور کر سکیں۔ اگر ہمارے ذہن کی زمین میں ایمان وایقان کی بجائے کفروالحاد کی مٹی ہوگی تو پھول بھی وہی کھلیں گے جو دیکھنے میں تروتازہ اورخوش رنگ ہوں گے۔اور ان میں خوشبو ئیں بھی ہوں گی لیکن یہ تروتازگی ہمیں فریب نظر میں مبتلا کردے گی جبکہ خوشبوئوں میں ایسازہر ہوگا جو انسانیت کے جوہرِ لطیف کو مائوف کردے گا۔
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مدرسے اورمکتب کو لتاڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسے ان دانش کدوں سے خواہ مخواہ کی کدّہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان میں جو علم وہنرجوانوں کو سکھایا جاتا ہے وہ سوزعشق سے خالی ہوتا ہے۔ اس علم سے دماغ تو منور ہو جاتے ہیں لیکن دلوں میں سوزوساز پیدا نہیں ہوتا۔ یہ علم گویا عصرحاضر کی برقی قوت کی طرح ہے کہ اس کی لہرسے انسان کا گھر تو روشن ہو جاتاہے لیکن اس کے ایک جھٹکے سے وہ ابدی نیند بھی سو سکتا ہے۔وہ دیکھتے ہیں کہ مدرسہ ومکتب میں نئی نسل کا گلا گھونٹا جا رہا ہےاورلا الہ الااللہ کی صدا جو مسلمان کے جسم میں روح کا مرتبہ رکھتی ہے، کہیں سنائی نہیں دیتی؎
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدائے لا الٰہ الا اللہ
اٹھا مَیں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
سوزوگداز کی اس بنیادی کمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان علم کے جوہر تابناک سے مستفید ہونے کے باوجود اپنے اندروہ ا طمینان محسوس نہیں کرتا جو اسے علم حاصل کرنے کے بعد خودبخود مل جانا چاہیے۔ اطمینان تو درکنار ،حقیقتاً جتنا وہ علم کے میدان میں آگے بڑھتا ہے اتنا ہی اس کے دل کے اضطراب اور روح کی پیاس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔حکمت کے پیچ وخم اسے زیادہ الجھائے چلے جاتے ہیں ۔وہ راہ علم کاایسا مسافر ہوتا ہے جسے اپنی منزل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اور وہ ’’فِیْ کُلِّ وَادٍیَّھِیْمُوْنَ ‘‘ کے مصداق مختلف اطراف وجوانب میں بھٹکتا رہتا ہے؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم وپیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
ایسا علم بجائے اس کے کہ انسان کو کمال انسانیت کی طرف لے جائے اسے گمراہیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتاہے۔ مغرب میں اسی علم نے ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا جس میں مرد اپنی مردانہ صفات اور عورت اپنے ’عورت پن‘ سے محروم ہوگئی۔ انسانوں کے دلوں میں سے محبت کے وہ لطیف جذبات جومختلف افرادکو ایک دوسرے سے وابستہ رکھتے ہیں جومرد اورعورت کو ایک پاک جذبے کے تحت ایک خاندان کی بنیاد رکھنے پر آمادہ رکھتے ہیں ،یکسر معدوم ہوگئے اورآج مغرب میں عائلی زندگی تقریباً تباہ ہو چکی ہے۔کنبہ یا خاندان جو معاشرے میں ایک مضبوط اکائی کی حیثیت رکھتا ہے ،تقریباً ختم ہو چکا ہے اور پھر عائلی زندگی کے اس طرح درہم برہم ہو جانے سےاقوام میں اخلاقی انارکی پھیل گئی ہے ۔اقبال کے نزدیک علمِ مغرب کا ایک درد ناک المیہ یہ ہے کہ اس نے عورت کو جذبۂ امومت سے بیگا نہ کردیا ہے؎
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انسان کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
عورتوں کی تعلیم جو اقبال کے زمانے میں مروج ہو رہی تھی ، اس کےبارے میں اقبال کے اسی طرح کے اشعار جا بجا ملتے ہیں مثلاً:
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں مردانِ خردمند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیٔ نسواں کہ زمرد کا گلوبند
اس طرح کے اشعار سے سطح بیں افراد کو گماں گزرتا ہے کہ اقبال عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے اور انہیں تعلیم دلانا قوم کے لیے مضرخیال کرتے تھے ،حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ عورتوں کی تعلیم کے زبردست حامی تھے۔
دین انسانی معاشرے کے لیے اہم ترین بنیادی ضرورت ہے۔ یہ سیاست کے ساتھ ملتا ہے تو اسے فاروقی بنا دیتا ہے۔ علم کے ساتھ ملتا ہے تو اسے نارسے نوراورمار کو یا ربنا دیتا ہے۔ بہادری اورمردانگی سے ملتا ہے تو مرحبی اور عنتری کو شجاعتِ حیدری میں بدل دیتا ہے دولت کے ساتھ ملتا ہے تو اسے بخل قارونی کے بجائے غنائے عثمانی کا لباس عطا کرتا ہے اور انسانی اخلاق سے ملتا ہے تو اسے ملکوتیت سے بھی بلند تر مقام پر لےجاتاہے۔ مختصریہ کہ کسی معاشرے میں انقلاب معنوی دین ہی کے ذریعے پیداکیا جا سکتا ہے۔ چونکہ نظام تعلیم ہی وہ عظیم ترین قوت ہے جو معاشرے کے دھارے کا رخ بدلتی اوراس کی ہیئت کو متشکل اورمتصور کرتی ہے اس لیے اس سرچشمہ قوت میں اعتدال اور توازن کا قائم رکھنا ضروری ہے۔ یہ اعتدال اورتوازن دین ہی کے ذریعے پیدا کیا جا سکتا ہے ۔چنانچہ نظام تعلیم کی بنیاد جب تک دینی افکار کے ذریعے مربوط اورمرصوص نہ کی جائے ، معاشرےکی عمارت کبھی مضبوط اور مستحکم نہیں ہو سکتی۔(جاری ہے)