سود کے خلاف مہم- منافقت پر مبنی ہے
]باغی کے خیالات اور اسلوب سے ادار ے کو اتفاق نہیں ہے لیکن چونکہ وہ اخلاص اور سچ کا دعویٰ کرتا ہے اس لیے اس کے کالم کو ہم نے برداشت کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا قارئین بھی اسے برداشت کرپائیں گے؟مدیر[
چونکہ سب لوگ مجھے باغی کہتے ہیں اور مسلسل کہتے رہتے ہیں اس لیے تنگ آکر میں نے بھی اپنا یہ صفاتی نام قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں باغی نہیں ہوں، البتہ مجھے جھوٹ، منافقت، مداہنت اور ریاکاری سے نفرت ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہی سکہ رائج الوقت ہیں:فرد میں، معاشر ے میں، ریاست میں اور خصوصاً ہماری دینی اور سیاسی قیادت میں اور مَیں خود کو ان کا کچا چٹھہ کھولنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔
اب یہی دیکھیے کہ آج کل علماء اور دینی حلقوں سے دھڑا دھڑسود کے خلاف بیانات آرہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی مذمت کی جارہی ہے اور دوسرے بینکوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جارہا ہے جنہوں نے سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے مغرب کی فکری اور عملی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے نظام چلانے کا جو فیصلہ کر رکھا ہے اس کے تحت وہ مجبور ہیں کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کوقبول کریں جس کا ایک جزو سود بھی ہے ۔لہٰذا ’امیر المومنین‘ ضیاء الحق سے لے کر لبرل پرویز مشرف تک اور امیر المومنین بننے کی خواہش رکھنے والے نوازشریف سے لے کر لبرل زرداری تک سب سودی نظام سرمایہ داری کو جاری رکھنے پر متفق بلکہ مصر ہیں۔عدالتیں بھی ان کی داشتہ ہیں۔ چونکہ حکومتوں کی نیت ٹھیک نہیں اس لیے پچھلے تیس (۳۰)سال سے سود کا کیس عدالتوں میں دھکے کھا رہاہے اور آئندہ بھی کھاتارہے گا اس لیے کہ کسی حکمران کی نیت ہی نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ سودی نظام کو ختم کرے اور نہ کسی میں اس کی ہمت ہے۔
علماء اور دینی قوتوںنے وہ سیاسی نظام تعلیم خود قبول کیا ہوا ہے جس میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ نظام صرف چند علماء کو پارلیمنٹ پہنچنے دیتا ہے۔ اور ان کے لیڈروں کو کسی کمیٹی کے سربراہی یا ایک آدھ وزارت دے دیتاہے تا کہ وہ زیر احسان رہیں اور چپ رہیں۔ حکومتوں کے پاس علماء کو چپ رکھنے کے اور بھی کئی ادارے ہیں جیسے اسلامی نظریاتی کونسل ،رئویت ہلال کمیٹی، محکمہ اوقاف ،علماء بورڈ ،قرآن بورڈ وغیرہ۔ جو علماء ان چیزوں سے مستفید نہیں ہو پاتےوہ بول کر اپنی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں اور بس۔حکمران نہیں چاہتے کہ کوئی ایسا قانون پاس ہو جو اسلامی ہو اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کا کہے۔ اگر ایسا قانون انہیں مصلحتاً یا دبائو میں بنانا پڑبھی جائے تو ان کی نیت اس پر عمل کی نہیں ہوتی لہٰذا وہ قانون سرکاری گزٹ اور قانون کی کتابوں میں لکھا پڑا رہتا ہے، اس پر کوئی عمل نہیں ہوتا۔ علماء کو بھی اس بات کا پتاہے لیکن وہ بیچارے بھی کیا کریں۔اپنا حلوہ مانڈہ جاری رکھنے کے لیے انہیں بھی تو کوئی سرگرمی درکارہے۔ مسجد میں نماز پڑھانے، تقریر کرنے اوردینی مدارس میں درس دینے کے علاوہ ان کے جو کچھ ذراذہین اور فعال افراد ہیں ،وہ کیا کریں؟ لہٰذا وہ اس طرح کے لایعنی کاموں میں لگے رہتے ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا جیسے سود کے خلاف تقریریں یا خلافت اور اسلامی نظام کے حق میں خطبے۔ اگرچہ علماء کی اکثریت اس قسم کی ’’دینی‘‘سرگرمیوں میںمصروف رہتی ہے جیسے روزہ ٹوٹنے کے مسائل، نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں اور آمین اونچی آواز میں کہنی چاہیے یا نیچی اور اس طرح کی فرقہ وارانہ بحثوں میں وہ اپنا اور اپنے مقتدیوں کا لہو گرماتے رہتے ہیں۔
معاف کیجیے گا بات لمبی ہوگئی،ہم بات کر رہے تھے سود کی۔اب بتایئے کہ سود کے بارے میں علما ء کی کسی بات میں کیسے وزن ہو سکتا ہے جب:
۱۔ علماء میں سے مولانا فضل الرحمن اور مولانا پروفیسر ساجد میردونوں حکومت میں شامل ہیں (اور اکثر رہتے ہیں)وہ حکومتوں پر دبائو کیوں نہیں ڈالتے؟ اس لیے نہیں ڈالتے کہ یہ ان کی ترجیح نہیں۔ ان کی ترجیح ہے ہر حالت میں اقتدار میں رہنا یا اصحاب اقتدار کے ساتھ لگے رہنا،اپنے ذاتی وجماعتی مفادات کے لیے۔
۲۔ دیوبندی علماء (جن کے سب سے زیادہ مدارس اور مساجد پاکستان میں ہیں)کے بڑے عالم مفتی تقی عثمانی صاحب سٹیٹ بینک اور ان کے اعزہ وتلامذہ دیگر بینکوں کے شریعہ ایڈوائزر ہیں اور لاکھوں روپے مہینہ کما رہے ہیں۔ ان سے کون کہے کہ بلاسود بینکنگ کے حامی ہو تو ان نوکریوں کو لات مارو اورعلماء کے ساتھ مل کر بلاسودی نظام کے لیے سڑکوں پر نکلو۔
۳۔ جو علماء سود کے خلاف تقریریں کر رہے اور بیانات چھپوارہے ہیں یا اس کے خلاف عدالتوں میں جارہے ہیں وہ یہی کام کرتے رہنا چاہتے ہیں تا کہ کفر کا نظام بھی چلتا رہے اور ان کی ’’دینی سرگرمیاں‘‘ بھی جاری رہیں۔وہ اسے ایک پرجوش تحریک بنا کر اسے نتیجہ خیز بنانا نہیں چاہتے ۔رہے نام اللہ کا۔
۴۔ نجی شعبے میں سود کے خلاف قانون پنجاب اسمبلی میں عرصہ ہوا پاس ہوچکا ہے۔ علماء کرام بتائیں کہ کیا اس پر عمل ہورہا ہے؟ اور اس پر عمل کے لیے علماء کرام کیا کررہے ہیں؟ اگر مرکز میں سود کے خلاف قانون پاس ہوبھی جائے تو علماء کرام کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ اس پر عمل بھی ہوگا! زکوٰۃ وعشر کا قانون، بیت المال کا قانون پاس ہوچکا ہے۔ کیا اس پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد ہورہا ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ اگر حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر اس طرح عمل کرے کہ سارے کنوینشنل بینکوں کو موجودہ طرز کے اسلامی بینکوں جیسابنادے تو بھی عملاً کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ علماء کی اجازت سے اور Shariah Compliance کے نام پر مو جودہ اسلامی بینک مختلف حیلوں بہانوں اور مختلف ناموں سے سود کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہم مزید کہتے ہیں کہ اگر حکومت سود کو خلاف قانون قرار دے بھی دے لیکن ہمارا معاشی نظام جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے تحت چلتا رہے، جیسے اس وقت چل رہا ہے۔ رشوت، کرپشن، دھوکہ، فراڈ، بنکوں کا قرضوں کا نظام، اشرافیہ کے لیے آسائشوں کا نظام اور شاہ خرچیاں، غیر ضروری درآمدات، امیر کو امیر تر اور غریبوں کو غریب تر بنانے کا نظام یونہی چلتا رہے ۔ زکوٰۃ وعشر کا نظام اسی طرح غیر مؤثر رہے جیسا اس وقت ہے، تو معاف کیجیے گا سود کو خلاف اسلام قرار دینے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ مہنگائی یوں ہی رہے گی اور پاکستانی مسلمان یوں ہی بھوکے مرتے رہیں گے۔