نوجوان نسل کے مسائل اور ان کا حل
نوجوانوں کے مسائل اور ان کے اسباب
ہماری جدید نسلیں اپنی تہذیب سے ہم آہنگ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے مسائل ومشکلات کا شکارہیں۔ ان مسائل ومشکلات کو اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے:
* طبیعت اور مزاج میں منفی اثرات کا غالبہ * ذہنی دبائو
* نفسیات میں بگاڑ کا پیدا ہونا* بزرگوں کے آداب کا نہ ہونا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان سے ترش روئی سے پیش آنا
* نرمی ،جس میں خیر کے سارے اجزا ء موجود ہوں،کافقدان
* اپنی بات کو سلیقہ سے پیش کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونا
* مادی حسن پر فدائیت * اپنا زیادہ سے زیادہ وقت موبائل یا فیس بک وغیرہ پر گزارنا۔
* دنیا کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہونا * مزاج کے خلاف واقعات اورباتوں پر بے قابو ہوجانا * دل کے خزانوں سے نا آشنا ہونا
* انسانی شخصیت میں روح کی فیصلہ کن اہمیت سے ناواقف ہونا۔ روح کو اس کی اصل غذا دینے کی طرف متوجہ نہ ہونا
* پیٹ، جنس اور دنیا کی فکر کے علاوہ دوسرے افکار سے بے نیاز ہونا
* فطرت میں ودیعت شدہ پاکیزہ جذبات محبت سے ناآشنائی
* مغرب کی مادی ترقی سے مرعوب ہوناجبکہ ان کی اچھی چیزوں کو اپنانےسے طبعی مناسبت کا نہ ہونا
* حقیقی علم ،جو معرفت نفس اور معرفت رب سے تعلق رکھتا ہے،کے حوالے سے بات سننے کا مزاج نہ ہونا
* حقیقی خوشی، مسرت اور حلاوت ،جو دل اورروح سے تعلق رکھتی ہے،محروم ہونا
* ۱مادیت اور مادی زندگی کو مسلط کرنے کی وجہ سے بے قراری کے انگاروں پرلوٹنا
* دوستی کو نبھانے کی صلاحیت سے قاصر ہونا
* دوستی کے غلط ماحول کی وجہ سے اپنی شخصیت میں موجود خیر کی صلاحیتوں کو پامال کرنا ۔
نوجوان نسل کا یہ بحران ایسا ہے جو ہماری ملت کے مستقبل کو تاریک بنانے اورغلامی کے بدترین دور کا باعث بن سکتا ہے۔ ملت کے دردمندافرادکو اس مسئلہ پرغوروفکر کرکے اس کے اسباب کا تعین کرنا پڑے گا اورنوجوان نسل کو اس بحران سے نکالنے کے سلسلے میں اپنے حصہ کا بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا۔
ہمارے نزدیک نوجوان نسل کو درپیش اس بحران میں جو اسباب کار فرما ہیں ،ان میں سے چند اسباب یہ ہیں :
* نظام تعلیم میں اپنی تہذیب سے ہم آہنگ تربیت کے نظام کا بالکل نہ ہونا۔دوسرے الفاظ میں بے مقصد نظام تعلیم کا ہونا۔
* مادیت کی ہمہ گیر مسموم فضا کا ہونا،جو ہر وقت جنسی جذبات کو بھڑکانے اورمقصد سے عاری فکر کو فروغ دینے کا موجب ہے۔
* عقل اور عقلیت کے غلبہ کی وجہ سےبزرگوں کے ادب واحترا م کا خاتمہ ۔
* حقیقی تصوف واہل تصوف اور نوجوان نسل کے درمیان دوری کی دیوارکا ہونا۔
* دل اور روح کو مطلوبہ غذا دینے کے ادراک وشعور سے بے بہرہ ہونا۔
* مادیت پرستی میں استغراق کی وجہ سے فطرت سلیمہ کے اجزاء کا بڑی طرح تک مجروح ہونا۔
* اپنے تہذیبی تسلسل ،اقدار اور اپنی تاریخ سے ناآشناہونا۔
* مغربی تہذیب سے نہ صرف مرعوب ہونا،بلکہ اس تہذیب سے ذہنی اور وجدانی طور پر ہم آہنگی محسوس کرنا ۔
نوجوان نسل دوراہے پر
ہماری آج کی نسلیں دوراہے پر کھڑی ہیں۔ ایک طرف تو بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی لہر ہے جس نے ان کے معاشی مسئلہ کو دشوارسے دشوار تر بنا دیا ہے۔دوسری طرف طاقتور الیکٹرانک میڈیا ہے جو ان کے جنسی جذبات اور حب مال کے جذبات کو بھڑکا کر ان کی شخصیت میں تلاطم پیدا کر رہا ہے۔تیسری طرف علمی ،فکری اور نظریاتی طور پر ان کی صحت مند خطوط پر رہنمائی کا کوئی قابل ذکر انتظام موجود نہیں۔ چوتھی طرف سیکولرزم کے طاقتور نظریات ہیں جو ان کے ذہنوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
ان ساری چیزوں نے مل ملا کر ہماری جدید نسلوں کو ذہنی ،نفسیاتی اور وجدانی طور پر بحران سے دوچارکردیا ہے اور ایسے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے جہاں ان کے دلوں میں مادیت اور روحانیت کے درمیان شدید کشمکش برپا ہے اور روحانی قوتوں پر مادیت کے تقاضے غالب ہوگئے ہیں۔
انسان چونکہ مادی نوعیت کے جسم اور نفس کے ساتھ روح سے بھی عبارت ہے بلکہ انسانی شخصیت کو چلانے اور اسے زندہ ر کھنے میں اصل کردار روح ہی کاہے۔روح کے رخصت ہوجانے سے انسان مردہ لاش بن جاتا ہے اور سارا جسمانی ڈھانچہ بیکار محض ہوجاتا ہے۔ اس سے روح اور روحانی قوتوں کی فیصلہ کن اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
نوجوان نسل کے مادیت وروحانیت کے اس دوراہے پر کھڑے ہونے سے بچائو کی واحد صورت یہ ہے کہ مادی قوتوں پر روحانی قوتوں کو غالب کرنے کی راہ اختیار کی جائے۔اس سے ان کی شخصیت پر پڑنے والا سارا مادی دبائو ختم ہو سکتا ہے اور اس دوراہے سے نکل کر ان کی شخصیت کی صحت مند بنیادوں پر تعمیر کا کام ہو سکتا ہے ۔اس طرح وہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ملک وملت اور ریاست کے لیے باعث خیروبرکت بن سکتے ہیں۔
لیکن اس بحران سے نکلنے کے لیے ہمت ،حوصلہ اور قوت فیصلہ کی ضرورت ہے۔یہ قوت فیصلہ انہیں پاکیزہ سیرت وکردار کے حامل افراد کی صحبت سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ فرددوست کے دین پر ہوتا ہے۔دوستی اور صحبت کے رخ کو بدلنے سے ہی ہماری نوجوان نسل اس دوراہے سے نکل سکتی ہے ،اس کا سب سے موثر طریقہ یہی ہے۔
یقیناً اس وقت درویش منش روحانی استادوں کا فقدان پیدا ہوگیا ہے او ر جو موجود ہیں وہ پس منظر میں چلے گئے ہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ مارکیٹ میں جن چیزوں کی طلب اور ضرورت نہیں ہوتی وہ چیزیں مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں۔ اگرچہ وہ موجود ہوتی ہیں لیکن تلاش بسیار کے بعد ملتی ہیں۔
کوئی چیز ایسی نہیں ہے ،جو طلب کے نتیجہ میں نہ ملتی ہو۔آپ اپنے اندر روحانیت کی سچی طلب پیدا کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ روحانی استاد کو آپ اپنے سامنے موجود پائیں گے۔اس طرح آپ رفتہ رفتہ روحانیت کے ایسے خزینہ سے بہرہ ورہوں گے کہ زندگی بھر کے سارے دکھ اور غم کا فور ہوجائیں گے۔