پاکستان میں نفاذِشریعت
کیوں نہیں ہو سکی ء کیسے ہو سکتی ہے از مدیر البرہان
[ہمیں ڈاکٹرصاحب کی اپروچ سے اتفاق نہیں ہے تاہم اس کے باوجود ہم ان کا موقف قارئین کی خرد افروزی کے لیے دے رہے ہیں ۔مدیر]
۱۔ نفاذ شریعت کا جو مفہوم آپ نے لیا ہے وہ Idealisticہے۔ اصولاً آپ کی بات درست ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ کیا ان معنوں میں مغل سلطنت اور امیہ خلافت کے دور میں شرع نافذ رہی کہ تمام مسلمان (یا مسلمانوں کی اکثریت)تابع تعلیمات شرع تھے۔
۲۔ یہ درست نہیں کہ سرمایہ دارانہ تغلب کے دور میں فرد اور معاشرہ کی اصلاح سے ۸۰ فیصد اسلام پر عمل ہو سکتا ہے۔ ’’تنظیمی قوت‘‘لازماً ریاستی جبر ہی ہوگی، لوکل گورنمنٹ کے متبادل کی شکل میں۔
۳۔ مسلم ریاست کوئی چیز نہیں۔پاکستان ایک خالصتاً دہریہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے جس کے تمام ادارے (فوج، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ ، میڈیا اور نظم ملکیت) سرمایہ دارانہ خطوط پر منظم ہیں۔اس سرمایہ دارانہ نظم تغلب کو مسمارکرنا ’’اصلاح‘‘ سے ممکن نہیں۔
۴۔ فرد کی اصلاح کے لیے ریاستی جبر کی ضرورت ہے۔ یہ بات آج کل ہم افغان طالبان کو Wgaeکے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
۵۔ اسلامی ریاست فرد کی خدمت کے لیے وجود میں نہیں آتی بلکہ اللہ کی حاکمیت کا مظہر ہوتی ہے۔اللہ انسان کی خدمت نہیں کرتا بلکہ بندہ رب کی اطاعت کرتا ہے۔
۶۔ کیا آپ کی مجوزہ اسلامی ریاست ان مسلم ممالک سے بھی دوستانہ تعلقات رکھے گی جو آج کل سامراج کے باجگزارہیں مثلاً مصر، الجیریا، بوسنیاوغیرہ۔
۷۔ آپ کے تصور اسلامی ریاست ودستور میں ریاستی اداروں (فوج، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا، نظم ملکیت اورمقننہ) کی ہیئت اور اساسیت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ ریاست اپنے اداروں کے مجموعہ کا نام ہے۔ آپ کا نقشۂ ریاست ان معنوں میں نامکمل ہے کہ وہ صرف اصول حکمرانی سے بحث کرتا ہے ریاست کی ساخت سے نہیں۔
۸۔ یہ عام غلط فہمی ہے کہ ’’پاکستان کا خواب‘‘ایک اسلامی ریاست کی تعمیر کا خواب تھا۔ تحریک پاکستان ایک خالصتاًمسلم قوم پرست تحریک تھی اور اس کی قیادت اور اس قیادت کے حمایتی ایک اسلامی ریاست بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔
۹۔ دینی سیاسی جماعتوں پر یہ الزام درست نہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ جمہوری عمل میں شرکت کے ذریعہ لازماً ایک ا سلامی ریاست وجود میں آجائے گی۔ وہ انتخابات میں شرکت پر اس لیے مجبور ہیں کہ اس کے علاوہ مخلصین دین کوبااقتدار بنانے کا کوئی موثر عوامی ذریعہ نظر نہیں آتا۔
۱۰۔ یہ غلط ہے کہ تعلیم اور تزکیۂ نفس کا کام ریاستی پشت پناہی کے بغیر عوام کی اکثریت میں اخلاقی وروحانی تبدیلی لا سکتا ہے۔ریاستی پشت پناہی کے بغیر اس قسم کا اصلاحی کا م صرف محدود طبقوں ہی کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ اسلامی تاریخ سے ثابت ہے اس لیے اسلامی ریاست ہمیشہ علما اور صوفیاء کی پشت پناہ رہی ہے۔
۱۱۔ مخلصین کی تعداد ملک میں ایک سے دو کروڑ ہے۔ ان کو مقامی سطح پر منظم کرنے کی یقیناً ضرورت ہے ۔لیکن یہ مخلصین دین تحکم قانون سرمایہ کی تابع داری پر مجبور ہیں۔ تحکم قانون سرمایہ کی اس گرفت کو توڑنے کے لیے لازم ہے کہ مخلصین دین کی تنظیم اقتداری ہویعنی مخلصین دین ریاست کے اندر ریاست بنانے کی جدوجہد کریں۔ تعلیمی وروحانی اصلاح کا کام اس جدوجد کا حصہ بنیا جائے تا کہ مخلصین دین کی تعداد بڑھتی رہے۔
۱۲۔ یہ غلط ہے کہ فرد کی تبدیلی کے نتیجہ میں ریاست خودبخودوجود میں آجائے گی۔ اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہو ا اور نہ ہو سکتا ہے۔ نبیﷺ نے ہجرت فرمائی اور باقی عرب تلوار سےفتح کیا۔ مکہ میں بھی ریاست درونِ ریاست قائم کی۔مدینہ کی ریاست خود بخود وجود میں نہیں آئی۔ یہ ہجرت کا نتیجہ تھی؟
۱۳۔ کیا جن لوگوں نے ایوبی آمریت کامقابلہ کیا تھا ان کی اخلاقی روحانی تربیت ہوگئی تھی یا وہ سیاسی کارکن تھے؟
۱۴۔ آپ کی فکر Ideaisticہے۔ آپ دور حاضر میں سرمایہ دارانہ غلبہ نے جس طرح مخلصین دین کو تحکم قانون سرمایہ کو قبول کرنے پر مجبور کیا اس کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سرمایہ دارانہ تنظیم ریاست اور سرمایہ دارانہ قانون کو توڑنے کے لیے سیاسی جدوجہد کا جاری رہنا ضروری ہے ۔ ہم طالبان کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلامی ریاست کو (جوبزور شمشیر قائم ہوئی ہے) اسلامی انفرادیت اور اسلامی معاشرے کے قیام اور فر وغ کاذریعہ بنائیں۔