مولانا صوفی عیش محمد
کچھ ا ن کی زبانی – کچھ دوسروں کی زبانی
۱۔کچھ میری زبانی
’میں نے زندگی سے کیا سیکھا؟‘(۹) ڈاکٹرمحمدامین
اپریل ۱۹۸۶ء میں جب مَیں سعودی عرب سے حصول تعلیم کے بعد واپس آیا تو اس وقت افغان جہاد آخری دموں پر تھا،مَیں نے اس میں بقدرہمت حصہ لینا شروع کیا(اس کی تفصیل پھر کبھی،اس وقت مولاناصوفی عیش محمدؒ پر چند سطور لکھنا پیش نظر ہے)۔ میری رہائش لاہور کے علامہ اقبال ٹائون میں تھی (اور ہے)۔اس وقت کے ایک جہادی ساتھی نے کہا کہ قریب کے ایک محلہ میں جہاں چند جہادی ساتھی رہتے ہیں ،وہاں ایک جہادی مولانا صاحب تشریف لا رہے ہیں آپ ضرور وہاں پہنچیں(جہاد ی سے یہاں مراد ہے جہاد افغانستان کی حمایت کرنے والے۔زبان سے ، قلم سے، پیسے سے ، جان سے)۔مجھے وہاں پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے وہ مکان دیکھا ہوا نہ تھا۔تنگ سی گلی تھی۔ مکانات بھی خستہ حال تھے۔ کوئی بورڈ وغیرہ بھی نہ تھا۔ مشکل سے پوچھ پاچھ کر تنگ سی سیڑھیوں کے ذریعے کمرے میں پہنچا۔ درمیانے سائز کا کمرہ کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ بیس پچیس آدمی ہوں گے۔ درمیان میں ایک اونچے لمبے مولوی صاحب تقریر فرمارہے تھے۔ کچھ دوستوں نے سمٹ کر مجھے آگے آنے دیا اورمیں مولوی صاحب سے تھوڑا قریب ہو کر بیٹھ گیا۔
مولوی صاحب کی تقریر آخری دموں پر تھی۔ انہوں نے بات سمیٹی اور کہنے لگے آیئے اب جہاد افغانستان کی کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں اور انہوں نے ہاتھ اٹھا دیئے۔مَیں بھی دعامیں شریک ہوگیا۔ دعا ایسی تھی کہ جلد ہی اس نے سب کو اپنے اندر جذب کرلیا۔ مولوی صاحب رو رہے تھے، اللہ سے گڑ گڑا کر جہاد کی کامیابی کے لیے دعا کر رہے تھے، مَیں نے نظر اٹھا کے دیکھا وہ شدت جذبات سے کانپ رہے تھے ۔ گلے کے بٹن اوربازو کے کف کھلے تھے اور میلے تھے۔ اللہ سے مانگتے، روتے، ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میرے ساتھ اکثر لوگ رو رہےتھے۔ مولانا کہہ رہے تھے ’’اے میرے مولا! اس جہاد کو کامیاب فرما ،ماسکو پر اسلام کا جھنڈا لہرا دے۔اے اللہ ! تیرے لیے مشکل کیا ہے، مجاہدین کو کامیابی عطا فرما ۔ماسکو پر اسلام کا جھنڈا لہرا دے،لہرا دے….‘‘۔ دعا ختم ہوئی تو لوگ وہاں سے اٹھنے لگے۔ چونکہ جگہ تھوڑی تھی اور اٹھنے چلنے میں دقت ہو رہی تھی ا س لیے مَیں بھی سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا۔ گلی سے واپس آتے ہوئے میں نے اترنے والے ساتھیوں سے پوچھا یہ مولوی صاحب کون تھے؟ انہوں نے کہا:ان کا نام صوفی عیش محمدہے۔
اس وقت تو مَیں بھی دعا کے زیر اثر تھا۔ بعد میں مَیں نے سوچا کہ یہ مولوی صاحب بھی کتنے عجیب اور سادہ لوح ہیں (یادرہے اس وقت روسیوں سے جہاد جاری تھا، روس ڈٹا ہوا تھا اوراس کی پسپائی کے کوئی آثار نہ تھے) یہ مجاہدین افغانستان ہی کو روسیوں سے بچا لیں تو بڑی بات ہے ماسکو پر اسلام کا جھنڈاکیسے لہرائے گا؟مَیں نے سوچا یہ مولوی صاحب بھی کتنے جذباتی اور غیر حقیقت پسند ہیں۔
ان دنوں مَیں جماعت اسلامی سے مایوس ہو چکا تھا، رکنیت سے استعفیٰ دے چکا تھا اورکام کرنے کے لیے کسی متبادل پلیٹ فارم کی تلاش میں تھا۔شعبۂ تعلیم میں کام کا رجحان بڑھ رہا تھا اور سلفی بھائیوں سے بھی موانست بڑھ رہی تھی۔ جو جہاد ی ساتھی میرے ساتھ رابطے میں تھے،وہ بھی اتفاق سے سلفی الفکرتھے۔ انہوں نے بتایا کہ پروفیسر ظفر اللہ صاحب جامعہ کراچی میں علوم اسلامیہ کے استاد ہیں، انہوں نے جامعہ ابی بکر کے نام سے کراچی میں ایک بڑا دینی مدرسہ بنایاہواہے جس میں ذریعۂ تعلیم عربی ہے، غیرملکی طلبہ بھی پڑھتے ہیں۔ ان کے پاس جاتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر کوئی تعلیمی منصوبہ بناتے ہیں۔مَیں ان کے ساتھ کراچی گیا اور ہم جامعہ ابی بکر میں جا کر قیام پذیر ہوئے۔ پتہ چلا ادارے کے منتظم مولانا صوفی عیش محمدؒ ہیں۔ میں نے انہیں دیکھا اورملا تو پہچان لیا کہ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے لاہور میں دعا کرائی تھی کہ یا اللہ! ماسکو پراسلام کا جھنڈا لہرا دے۔ پروفیسر ظفر اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی اور تعلیمی موضوعات پر گفتگو بھی۔ اس کا حاصل یہ تھا کہ میرا جدید اور قدیم تعلیم کو جمع کرنے کا منصوبہ ان کے لیے بھی نامانوس تھا۔ پھران پر سلفیت غالب تھی اوراس سے ہٹ کر کچھ سوچنا ان کے لیے مشکل تھا۔ خیردو دن ہم مولانا عیش محمد صاحب کے پاس رہے اور یہ اندازہ ہوا کہ وہ درویش منش آدمی ہیں اور بطور منتظم کام کرنا ان کے لیے باعث دبائوتھا۔
اس دوران باتوں باتوں میں ان کا سنایا ہوا ایک واقعہ یاد ہے جس سے ان کے اخلاص، سادگی اور للہیت کااندازہ ہوتا ہے۔کہنے لگے مَیں پنجاب کے فلاں مدرسہ میں پڑھاتا تھا۔ (جگہ کا نام مجھے اب یاد نہیں) تو دس پندرہ کوس دورکے ایک مدرسہ کے مولوی صاحب آئے ہوئے تھے۔ انہو ںنے مولانا صوفی عیش محمدؒ صاحب سے کہا کہ آپ اگلا جمعہ ہماری مسجد میں تقریر فرمائیں۔ مولانا راضی ہوگئے۔ مولانا نے بتایا کہ جمعہ کا دن آیا تو جیب میں وہاں جانے کا کرایہ نہ تھا۔ پیدل چل پڑا۔ فاصلہ کافی تھا لہٰذا کوشش کے باوجود لیٹ ہوگیا اور جمعہ کے بعد وہاں پہنچا۔ وہ مولوی صاحب کافی ناراض ہوئے کہ ہم نے آپ کی تقریر کا اعلان کر رکھا تھا۔آپ پہنچے ہی نہیں۔ خیر انہوں نے وعدہ لیا کہ اگلا جمعہ بروقت تشریف لائیں۔ مَیں نے وعدہ کرلیا۔اگلاجمعہ آیا تو جیب میں پھر پیسے نہ تھے، کسی سے ادھار مانگنے کو بھی جی نہیں چاہا۔چنانچہ پیدل چل پڑا،ذرا صبح نکلا تھا،تیز بھی چلا لیکن فاصلہ کافی تھا۔ پھر لیٹ ہوگیا تقریر کا وقت گزر گیا اور بمشکل نماز میں شریک ہوا۔کہتے ہیں ان مولوی صاحب نے مجھے خوب لتاڑا کہ عالم دین ہو کر آپ نے دوسری بار وعدہ خلافی کی ہے اور سخت سست کہتے اور ناراض ہوتے رہے کہ تمہاری وجہ سے مجھے دوسری بار شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ مولاناکہتے ہیں کہ میں چپکے سنتا رہا اور معذرت کرتا رہا کہ بوجوہ تاخیر ہوگئی اور پھر پیدل واپس چل پڑا اور انہیں نہ بتایا کہ جیب میں کرایہ نہ تھا اس لیے پیدل آنا پڑا اور تاخیرہوگئی۔ مَیں سوچتا رہا یا اللہ ! دنیا میں ایسے سادہ اورمخلص لوگ بھی ہوتے ہیں۔
پھرجہادافغانستان کامیاب ہوا۔ روسیوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ سوویت روس ٹوٹ گیا، اس سے پانچ مسلمان مملکتیں آزادانہ وجودکے ساتھ ظہور پذیر ہوئیں اور مجھے ۱۹۸۶ءمیں مولانا صوفی عیش محمدؒ صاحب کی وہ دعا یاد آگئی جو انہوں نے رو رو کرکی تھی کہ یا اللہ! ماسکو پر اسلام کاجھنڈا لہرا دے اور مجھے اپنا تاثر بھی یاد آیا کہ مَیں نے اس وقت یہ سمجھا تھا کہ یہ مولوی صاحب کتنے سادہ لوح اور غیر حقیقت پسند ہیں کہ ایک ناممکن بات کی دعا کر رہے ہیںلیکن اللہ نے ان کی دعا کو (ایک لحاظ سے) شرف قبولیت بخشا۔
مئی ۲۰۲۲ء میں مجھے پتہ چلا کہ مولانا صوفی عیش محمد صاحب ماموں کانجن میں ہوتے ہیں جہاں انہوں نے ایک دینی مدرسہ قائم کررکھا ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ ان کی خدمت میں جائوں اور جاکر ان سے دعا کرائوں۔ جانے سے پہلے برادر ڈاکٹرسیف اللہ صاحب (صدرشعبہ علوم دینیہ،اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور)سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا:ٹھہریئے میں پتا کرواتا ہوں کیونکہ بعض اوقات وہ یہاں اور بعض اوقات جامعہ ابی بکر کراچی میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب نہیں دیا تو کچھ دن بعد مَیں نے انہیں یاد کرایا۔انہوں نے بتایا کہ مولانا بیمار ہیں اور فیصل آباد ہسپتال میں داخل ہیں۔ پھر ۷جون کو ان کے انتقال کی خبر آئی اور میں انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر رہ گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے لگا اور اپنی بیوقوفی پر رونا آیا کہ ایسے گوہرآبدار سے استفادہ نہ کیا۔