امید کی تلاش میں

امید کی تلاش

اسٹیبلشمنٹ کارویہ تباہ کن ہے۔سیاستدان ناکام ہو چکے۔ علماء اوردینی جماعتوں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔عوام کو دین کی خبر نہیں،دو وقت کی روٹی ہی ان کا لاینحل مسئلہ بن چکی،امید کی کرن کہیں سے پھوٹتی نظر نہیں آتی۔حل کیا ہے؟
* ’البرہان ‘کا ایک صفحہ کا اداریہ لکھناہمارا برسوں کا معمول ہے لیکن اب مسائل کی گھمبیرتا کا یہ حال ہے کہ کئی صفحات کالے کرو تو بھی تشفی نہیں ہوتی۔
* پاکستانی اسٹیبلشمنٹ (اشرافیہ، حکمران طبقات خصوصاً فوج) کا حال یہ ہے کہ اس نے طویل برسوں پاکستان پر براہ راست حکومت کی اور اب برسوں سے پس پردہ رہ کر بادشاہ گر کا کر دارادا کرنے پر مصر ہے۔بلکہ چاہتی ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہ ہلے۔ہم چونکہ مغربی جمہوریت کو مقدس نہیں سمجھتے لہٰذا ہم اس کا یہ کردار بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فوج بھی امریکہ کی مرضی کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھاتی اور امریکہ کی اسلام، مسلم اور پاکستان دشمنی مسلمہ امر ہے۔لہٰذا پاکستان کی نظریاتی حفاظت (اسلام اور دو قومی نظریہ کی پاسبانی) فوج کا درد سر ہی نہیں۔
* ہماری شو مئی قسمت کہ پاکستان بنانے والوں نے اور بعد میں آنے والی کسی حکومت نے ملک سے سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام ختم کرنے کا نہیں سوچا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ۹۰فی صد غریب اور اسلام پسند متوسط طبقے کی نمائندگی ہی نہیں کرتے۔انہیں نہ ملک کی پر وا ہے نہ اس کی نظریاتی جہت کی۔انہیں محض اپنی پیٹ پوجا یعنی ہوس جاہ ومال سے غرض ہے، ملک جائے بھاڑ میں۔ ان کے غیر ملکی اکائونٹوں میں ڈالر جمع ہونے چاہئیں،عوام روٹی کو ترستی ہے تو ان کی بلا سے۔
* دینی قوتوں سے اصلاح کی امید کی جاسکتی تھی لیکن ان کی ایک بڑی تعداد نے اقتدار کے لیے مسلم حکمرانوں سے منافست و مقابلہ بازی شروع کردی اور وہ بھی عوام کی دینی تربیت کیے بغیر اور ان کی حمایت حاصل کیے بغیر اور اپنے اپنے مسلک کی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی اسٹیبلشمنٹ اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے آسانی سے انہیں شکست دے کر کھڈے لائن لگا دیا۔بقیہ علماء نے کروڑوں مسلمان طلبہ وطالبات کی اسلامی تعلیم وتربیت کو اہمیت دینے کی بجائے اور عوام کی دینی تربیت کرنے کی بجائے ساری توجہ ان دینی مدارس پرمرکوز رکھی جن میں عصری علوم وافکارکا گزرنہ تھا اور اپنے اپنے مسلک کے ایسے افراد پیدا کرنے شروع کردیئے جو ہم عصر پاکستانی معاشرے اورریاست میں کوئی کردارادا کرنے سے قاصر تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ وہ غلبۂ اسلام تو رہا ایک طرف،دینی تعلیمات واقدار کے تحفظ میں بھی ناکام ہوگئے اور فرد،معاشرہ اور ریاست سب مغرب کی الحادی فکروتہذیب کے سیلاب میں بہے چلے جارہے ہیں۔
* جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ کا لانعام ہیں۔ جس ملک اورمعاشرے میں دینی اور سیاسی قیادت ناکام ہو جائے وہا ں عوام کی حالت کیا ہوگی؟ شرح تعلیم مایوس کن ہے۔ قرآن کو سمجھنے والے اس معاشرے میں ایک فی صد بھی نہیں ۔لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔غربت ،جہالت،بیماری، انصاف کی عدم فراہمی اور اخلاقی ابتری یہ ہے آج کے پاکستانی عوام کا حال۔
* بلاشبہ یہ حالات مایوس کن ہیں اور اصلاح احوال کے لیے امید کی کرن نظر نہیں آتی کہ اس معاشرے کا کیا بنے گا؟ تاہم اے لوگو! یاد رکھو کہ کوئی نیا پیغمبر نہیں آنے والا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ موقوف کردیا۔اب ہمیں گرنے کے بعد خود ہی اٹھنا ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہمارے پاس موجود ہے ہم اس کی روشنی میں آگے بڑھ سکتے ہیںاور اپنی اصلاح آپ کر سکتے ہیں۔
اللہ نے اپنا قانون اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے کہ ﴿اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ﴾’’کہ وہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنا حال نہ بدلے۔‘‘ لہٰذاہمیں اپناحال بدلنے کے لیے، اپنی ا صلاح کے لیے خود اٹھنا ہے۔ اس کی ابتداء اس طرح ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں کو اس پستی کا احساس ہے،جو اس پستی سے نکلنا چاہتے ہیں وہ اکٹھے ہو جائیں، سرجوڑکربیٹھیں اور مل کر اس پستی سے نکلنے کا لائحہ عمل سوچیں۔’ فھل من مدّکر؟