عصر حاضر کا ناسور: بے مقصد زندگی   

عصرِ حاضر کا ناسور- بے مقصدزندگی

انسان عمر کے کسی بھی حصے میں ہو، اگر زندگی کا مقصد واضح ہو تو زندگی آسان اور خوبصورت ہوجا تی ہے۔ یہ تجربہ امریکا کے ایک اولڈ پیپلزہوم میں ہوا اور اس نے دنیا کی نفسیاتی شکل تبدیل کر دی۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس تجربے اور اس کے نتائج سے واقف نہیں ہیں چنانچہ ہماری زندگی میں امن، کامیابی اور خوشی نہیں۔ ہم آج اگر بے مقصدیت کے اس المیے کو سمجھ جائیں تو ہماری زندگی کی شکل تبدیل ہو جائے۔
امریکا کے ایک اولڈ پیپلزہوم میں خوفناک بیماریوں کے شکار بوڑھے رہتے تھے۔ یہ چند مہینوں کے مہمان بوڑھے تھے۔ اس اولڈ پیپلزہوم میں آنے والے تمام مہمان جانتے تھے کہ یہ اب زیادہ عرصے تک دنیا کی رونقیں نہیں دیکھ سکیں گے۔ اولڈ ہوم کا سٹاف بھی ان مہمانوں کی منزل سے واقف تھا۔ یہ بھی ان مریضوں کی دل و جان سے کیئرکرتا تھا لیکن پھر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ان مہمانوں پر ایک نفسیاتی تجربہ کیا۔ یہ پودوں کے چند گملے لے کر ہوم میں پہنچا، اس نے بوڑھے مریضوں کے دو گروپ بنائے اوریہ پودے دونوں گروپوں میں تقسیم کر دئیے۔
پروفیسر نے ایک گروپ کو بتایا یہ پودے آپ کی ذمہ داری ہیں، ان کو پانی دینا، دھوپ میں رکھنا، ان کو کھاد دینا، ان کی گوڈی کرنا، ان کو سردی اور گرمی سے بچانا اور ان کو کیڑوں، مکھیوں اور پرندوں سے محفوظ رکھنا آپ لوگوں کی ڈیوٹی ہے، جبکہ دوسرے گروپ سے کہاگیا ہم نے یہ پودے آپ کے کمرے میں رکھ دیے ہیں، آپ چاہیں تو ان کی ذمہ داری اٹھا لیں، نہ چاہیں تونہ اٹھائیں۔
پروفیسر نے پودے حوالے کیے اور دونوں گروپوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ گروپ ایک کے بوڑھوں نے پودوں کی “ٹیک کیئر” شروع کر دی، ان میں سے کچھ بابوں اور مائیوں نے گملوں کو پانی دینا شروع کر دیا، کچھ ان کی گوڈی کرتے تھے، کچھ ان میں کھاد ڈالتے تھے، کچھ انہیں موسموں سے بچاتے تھے اور کچھ انہیں مکھیوں، مچھروں اور پرندوں سے محفوظ رکھتے تھے۔
پروفیسر نے مریض بوڑھوں کی جسمانی صورت حال کو بھی تبدیل ہوتے دیکھا، اس نے دیکھا پودے ملنے سے قبل یہ لوگ سارا دن بستر پر گزارتے تھے، یہ چڑچڑے اور بدمزاج بھی تھے اور یہ معمولی معمولی باتوں پر غصے سے بھی بھڑک اٹھتے تھے لیکن پودے ملنے کے بعد ان کا مزاج تبدیل ہونے لگا۔ ان کا مزاج خوش گوار ہو گیا، یہ ایک دوسرے کے ساتھ اور طبی عملے کے ساتھ شائستگی سے گفتگو کرنے لگے، انہیں پہلے کے مقابلے میں بھوک بھی زیادہ لگنے لگی۔ یہ بستر سے اتر کر چہل قدمی بھی کرنے لگے اور ان کا دوائوں پربھی انحصار کم ہونے لگا۔
ان کے دردوں میں بھی کمی آگئی اور یہ جسمانی لحاظ سے بھی فٹ ہو گئے جبکہ ان کے مقابلے میں دوسرے گروپ کے لائف سٹائل میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ لوگ اسی طرح سارا سارا دن بستر پر پڑے رہتے تھے اور طبی عملے اور ساتھی مریضوں کے ساتھ جھگڑتے بھی تھے۔ یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا۔ پروفیسر نے سال کے بعدجب دونوں گروپوں کی ریزلٹ شیٹ بنائی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گروپ ایک کے لوگ گروپ دو کے مریضوں سےجسمانی اور طبی لحاظ سے بھی اچھے تھے اور ان کے مرنے کی شرح بھی کم تھی۔
پروفیسر نے دیکھا کہ گروپ دو کے 30 فیصد مریض گروپ ایک کے مریضوں اور بوڑھوں کے مقابلے میں جلد فوت ہو گئے۔ یہ ایک حیران کن سٹڈی تھی جس کے آخر میں پروفیسر نے نتیجہ نکالا کہ گروپ ایک کے بوڑھوں کو زندگی کا مقصد مل گیا تھا جب کہ گروپ دو کے مریضوں کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھاچنانچہ ان کی طبی اور نفسیاتی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پروفیسر کا کہنا تھا زندگی جب کسی دوسری زندگی کا بوجھ اٹھا لیتی ہے تو اس کی قوتِ برداشت اور ہمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پہلی زندگی خوشگوار بھی ہو جاتی ہے اور مضبوط بھی۔ آپ اگر اپنی زندگی کو اس سٹڈی میں رکھ کر دیکھیں توآپ کو اپنی تمام کوتاہیوں، خرابیوں، کمیوں اور ڈپریشن کا جواب مل جائے گا۔
ہماری زندگی میں جب کوئی مقصد، کوئی گول آجاتا ہے تو ہماری قوت مدافعت میں اضافہ ہو جاتا ہے، ہمارے جسم میں طاقت بھی آجاتی ہے اور ہمارا مزاج بھی خوش گوار ہو جاتا ہے اور ہم اگر بے مقصدیت کا شکار ہو جائیں، ہم یہ محسوس کرنے لگیں کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا تو اس کے بعد ہم خود کو زمین کا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور یہ سوچ ہمیں بستر مرگ تک پہنچا دیتی ہے۔ مقصد یا گول کی کمی ہمارے جسم، ہمارے دل اور ہمارے دماغ میں خلاء پیدا کر دیتی ہے۔ یہ خلاء ہمیں آہستہ آہستہ اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے اور یہ کھوکھلا پن بعدازاں مختلف بیماریوں اور مختلف عارضوں کا گھر بن جاتا ہے۔