عید کا نیا جوڑا 

عید کا نیا جوڑا

ڈاکٹر عارفہ سید کہتی ہیں کہ ایک عید پر میں نے اپنی ماں سے فرمائش کی کہ اس عید پر میں نیلے رنگ کا غرارہ پہنوں گی اور وہ غرارہ ٹیفٹا( Taffeta )کا ہو۔ اس پہ مجھے ہلکے پیلے رنگ کی جارجٹ کی قمیص چاہیے اور اس پر چنری کا دوپٹہ ہو۔ میری ماں نے بڑے پیار سے اور بہت لاڈ سے میرا وہ عید کا جوڑا بنایا اور میں وہ عید کا جوڑا پہن کر بہت خوش ہوئی۔
ہمارے ہاں یہ رسم ہےکہ عید کے ناشتہ کا بڑا اہتمام ہوتا ہے تو جب ہم عید کے ناشتے سے فارغ ہوئے تو مَیں نے اپنی ماں سے کہا کہ اب ہم کھیلنے جا رہے ہیں۔تو انہوں نے انتہائی لاڈ سے بانہیں پھیلائیں اور مجھے اپنی بانہوں میں لے کے چومتے ہوئے پوچھا کہ تمہیں اپنا جوڑا بہت اچھا لگا؟ مَیں نے کہا ہاں بہت خوبصورت ہے جیسا مَیں چاہتی تھی بالکل ویسا ہی ہے۔تو اماں جی کہنے لگیں بیٹا اب یہ جوڑا تمہارے لیے ہی ہے نا؟ مَیں نے کہا جی بالکل۔تو اماں بولیں بیٹا، تم اب باہر کھیلنے جاؤ گی تو بہت سے بچوں نے ایسا جوڑا نہیں پہنا ہو گا،، تو کیا حرج ہے اگر تم اپنا کوئی اور جوڑا جو تم پہلے پہن چکی ہو اور وہ اچھا بھی ہو، وہ پہن لو اور کھیلنے چلی جاؤ۔ اس وقت میرے دل میں کھیلنا زیادہ اہم تھا، جوڑا زیادہ اہم نہیں تھا۔ میں نے کہا، اچھا ٹھیک ہے، بدل لیتی ہوں، تو مَیں دوسرا جوڑا پہن کےکھیلنے چلی گئی۔اس وقت کھیل بھی بہت مزے دار تھے، لیکن بہت بعد میں زندگی میں مجھے احساس ہوا کہ میری ماں مجھے کیا سکھا کے گئی ہیں!
وہ یہ کہ:لوگوں میں لوگوں کی طرح جیتے ہیں۔وہ ٹیفٹا کا غرارہ، وہ جارجٹ کی قمیص، وہ چنری کا دوپٹہ مجھے اچھا لگتا ہے مگر…. یہ سب اس لیے اچھا نہیں ہونا چاہیے کہ اسے دیکھ کے کسی دوسرے کے دل میں رنج آئے کہ وہ ایسا جوڑا کیوں نہیں پہن سکا عید کے دن!
اب لوگ ایسے نہیں سوچتے۔ اُس وقت آپ کے ہاں علم بڑی چیز تھی، آج آپ کے ہاں دولت بڑی چیز ہے!