فکرونظر

کیا ہم آزاد ہیں؟

۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو ہم نے بظاہر آزادی حاصل کی۔ ۷۵طویل برس بیت گئے لیکن غلامی ہمارے اندر سے ابھی تک نکلی نہیں۔ہم فکری طور پر آج بھی غلام ہیں۔ سیاسی اور معاشی لحاظ سے بھی ہم غلامی کے بند نہیں توڑ سکے اور دینی واخلاقی لحاظ سے بھی ہم نفس اور طاغوت کی غلامی سے نہیں نکل سکے۔ ابھی چند دن پہلے عیدالاضحی گزری۔اس وقت بھی یہی بات ذہن پر مستولی رہی کہ؎
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مؤمنیں
ہماری فکری غلامی کی حالت یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور حکمران طبقات (عدلیہ،فوج ،بیورو کریسی)ہی نہیں ہمارے اکثر دانشور، ادیب، صحافی اور پروفیشنلز کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ دنیا پرغالب مغربی فکروتہذیب ہی ہمارے درد کا درماں ہے۔ رہا دینِ اسلام تو اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں اور توفیق ہو تو کوئی نماز پڑھ لیتا ہے یا روزہ رکھ لیتاہے یا دین ہماری معاشرتی رسم ورواج کی صورت میں باقی رہ گیا ہے کہ مولوی صاحب کو بلاکرنکاح پڑھا لیا، کوئی فوت ہوگیا تو مولوی صاحب نے جنازہ پڑھادیا یا دعائے مغفرت کرا دی۔عید کی نماز پڑھ لی۔ عید میلاد پرجھنڈیاں لگا دیں یا درود کی محفل سجالی۔ دین اسلام ہمارے لیے بس یہی ہے جہاں تک انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تعلق ہے تو وہ مغربی فکروتہذیب ہی کے اصول واقدار کے مطابق گزر رہی ہے اور لوگوں کو اس پر خلش بھی نہیں، اس کو بدلنے کی چاہت بھی نہیں۔ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہے۔
ہماری سیاسی غلامی جوں کی توں ہے۔ پاکستان میں حکومتیں آج بھی امریکہ کی مرضی سے بنتی بگڑتی ہیں۔ پہلے وائسرائے ہوتا تھا،اب یہ کام انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر فوج کرتی ہے۔ سیاستدانوں کو قابو کرنے کے لیے مغرب نے اپنی ’جمہوریت‘ ہمیں برآمد کررکھی ہے بلکہ ورثے میں دی ہے اور کسی کی مجال ہے کہ اس سے ہٹ کر سوچ بھی سکے۔
معاشی غلامی سیاسی غلامی سے بھی بدتر ہے کہ مغرب نے مسلمانوں کو خصوصاً پاکستان کو سودی قرضوں میں جکڑرکھا ہے۔ہماری ساری معاشی پالیسیاں مغرب سے لائے گئے ماہرین معیشت کی دین ہوتی ہیں جو آقایان ولیٔ نعمت کے بھونپو (His Master`s voice)ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مفادات سے باہر پاکستان کا کوئی وزیر خزانہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ مسلمان عوام بھوکی مرتی ہے تو مرتی رہے،ایجنٹ حکمرانوں کی بلا سے۔ ان کے پاس تو بہت پیسہ ہے، یورپی وامریکی بینکوں میں اور وہاں جائیدادیں ہیں۔
اس صورتحال کی اصلاح کون کرے؟مذہبی قیادت مسجد اور مدرسے میں مصروف ہے۔ انہیں اس سے باہرکچھ نظر نہیں آتا۔مسلک پرستی پر مبنی دینی سیاسی جماعتوں کو انٹرنیشنل اورمقامی اسیٹبلشمنٹ نے باہم لڑا لڑا کرادھ موا کردیا ہے۔کوئی ہے جو ان کے منہ میں پانی ڈالے؟ووٹ بینک ہی نہیں۔ چند دن پہلے پنجاب میں ضمنی انتخاب ہوا۔ دو دینی جماعتوں نے اس میں حصہ لیا۔ تحریک لبیک کو ۵فی صد ووٹ ملے اور جماعت اسلامی کے سارے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ اس شکست پر افسوس کرنے اور رونے والا بھی کوئی نہیں کہ احساس زیاں ہی ختم ہوگیا ہے۔
۱۴؍اگست یوم آزادی ۔کیا ہم آزاد ہیں؟ہم نے کس آزادی کا خواب دیکھا تھا؟اقبال نے کیا سوچ کےشمال مغربی ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کی تجویز دی تھی؟ اور جناح نے اسلام اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک پاک سرزمین کے حصول کی جدوجہد کی تھی؟ہم کہتے ہیں کہ اصلاحی قوتیں کہاں ہیں؟امید کی کرن کہاں سے پھوٹے گی؟