معاشرے کےمختلف طبقات سے خطبات شاہ ولی اللہ

اے علماءکرام!
مَیں اُن طالبان ِعلم سے کہتا ہوں جو اپنے آپ کو علما کہتے ہیں کہ اے بے وقوفو!تم یونانیوں کے علوم اور صرف ونحوومعانی میں پھنس گئے اور سمجھے کہ علم اس کا نام ہے ،حالانکہ علم تو کتاب اللہ کی آیاتِ محکمات ہیں،یا پھر وہ سنت ہے جو رسولﷺ سے ثابت ہو۔تم پچھلے فقہا کےاستحسانات اور تفریعات میں ڈوب گئے۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ حکم صرف وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا؟تم میں سے اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب کسی کو نبی کی کوئی حدیث پہنچتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ میرا عمل تو فلاں کے مذہب پر ہے نہ کہ حدیث پر۔ پھر وہ حیلہ یہ پیش کرتاہے کہ ’’صاحب! حدیث کا فہم اور اس کے مطابق فیصلہ تو کاملین وماہرین کاکام ہے اور یہ حدیث ائمہ سلف سے چھپی تو رہی نہ ہوگی،پھرکوئی وجہ تو ہوگی کہ انہوں نے اسے ترک کردیا‘‘ ۔جان رکھو! یہ ہرگز دین کا طریقہ نہیں ہے۔ اگر تم اپنے نبی پرایمان لائے ہو تو اس کا اتباع کرو خواہ کسی مذہب کے موافق ہو یا مخالف۔
اے گروہ صوفیاء!
تم جو کسی استحقاق کے بغیر باپ دادا کی گدیوں پر بیٹھے ہو ،میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ کیا دھڑے بندیاں تم نے کررکھی ہیں؟کیوں تم میں سے ہر ایک اپنے طریقہ پر چل رہا ہے اور کیوں اس طریقہ کو سب نے چھوڑ رکھا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ پر اتارا تھا؟تم میں سے ہر ایک امام بن بیٹھا ہے،اپنی طرف لوگوں کو بلا ر ہاہے اور اپنے آپ کو ہادی ومہدی سمجھتا ہے ، حالانکہ وہ ضالّ ومضلّ ہے ہم ہرگز ان لوگوں سے راضی نہیں جو دنیا کے فوائد کی خطر لوگوں سے بیعت لیتے ہیں ،یا اس لیے علم حاصل کرتے ہیں کہ اغراضِ دنیوی حاصل کریں،یا لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنی خواہشاتِ نفس کی اطاعت ان سے کراتے ہیں۔یہ سب راہزن ہیں ،دجال ہیں،کذاب ہیں،خود بھی دھوکے میں ہیں ا وردوسروںکو بھی دھوکا دے رہے ہیں۔
پھراس زمانہ کی ایک بیماری یہ ہے کہ ہر ایک اپنی رائے پر چلتا ہے اور بگ ٹٹ چلا جا رہا ہے،نہ متشا بہات پر جا کر رکتا ہے نہ کسی ایسے امرمیں دخل دینے سے باز رہتاہے جو اس کے علم سے بالاتر ہو۔احکام کے معانی اور اسرار پر ہر ایک اپنی عقل سے کلام کر رہاہے اور جو کچھ جس نے سمجھ لیا ہے اس پر دوسروں سے مناظرہ ومباحثہ کر رہاہے۔
دوسری بیماری یہ ہے کہ فقہ میں حنبلی اور شافعی وغیرہ کے سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ہرایک اپنے طریقہ میں تعصب برتتا ہےاوردوسروں کے طریقہ پراعتراض کرتا ہے۔ ہر مذہب میں تخریجات کی کثرت ہے اور حق اس غبارمیں چھپ گیا ہے۔‘‘
ا ے عالمو اور صوفیو!
اے زہد کے مدعیو! تم ہر وادی میں بھٹک نکلے اور ہر رطب ویا بس کو لے بیٹھے۔تم نے لوگوں کو موضوعات اور اباطیل کی طرف بلایا۔تم نے خلق خدا پر زندگی کا دائرہ تنگ کردیا حالانکہ تم فراخی کے لیے مامور تھے نہ کہ تنگی کے لیے ۔تم نے مغلوب الحال عشاق کی باتوں کو مدارعلیہ بنالیا ہےحالانکہ یہ چیزیں پھیلانے کی نہیں لپیٹ کررکھ دینے کی ہیں۔
اے حکمرانو!
تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا؟تم فانی لذتوں کی طلب میں مستغرق ہوگئے اور رعیت کو چھوڑ دیا کہ ایک دوسرے کو کھا جائے۔ علانیہ شرابیں جارہی ہیں اور تم نہیں روکتے۔زناکاری،شراب خواری اور قمار بازی کے اڈے برسرعام بن گئے ہیں اور تم ان کا انسداد نہیں کرتے۔اس عظیم الشان ملک میں مدت ہائے درازسے کوئی حد شرعی نہیں لگائی گئی۔ جسے تم ضعیف پاتے ہو اسے کھا جاتے ہو اور جسے قوی پاتے ہو اسے چھوڑ دیتے ہو۔کھانوں کی لذت ،عورتوں کے نازوانداز، کپڑوں اورمکانوں کی لطافت،بس یہ چیزیں ہیں جن میں تم ڈوب گئے ہو،کبھی خدا کا خیال تمہیں نہیں آتا۔
اے فوجیو!
تمہیں اللہ نے جہاد کے لیے ،اعلائے کلمہ حق کے لیے ،شرک واہل شرک کا زور توڑنے کے لیے فوجی بنایا تھا،اسے چھوڑ کر تم نے گھوڑسواری اور ہتھیار بندی کو پیشہ بنالیا۔اب جہاد کی نیت اور مقصد سے تمہارے دل خالی ہیں۔پیسہ کمانے کے لیے سپاہ گری کا پیشہ کرتے ہو ،بھنگ اور شراب پیتے ہو،ڈاڑھیاں منڈاتے ہو اورمونچھیں بڑھاتے ہو،بندگانِ خدا پر ظلم ڈھاتے ہو اور تمہیں کبھی اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ حرام کی روٹی کما رہے ہو یا حلال کی۔خدا کی قسم تمہیں ایک روز دنیا سے جاناہے پھر اللہ تمہیں بتائے گا کہ کیا کرکے آئے ہو۔

اے مسلمانو!
تم میں سے امانت ودیانت رخصت ہوگئی ہے،اپنے رب کی عبادت سے تم غافل ہوگئے ہو اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگے ہو۔تم غیر اللہ کے لیے قربانیاںکرتے ہواور پیروں کی قبروں کا حج کرتے ہو۔ یہ تمہارے بدترین افعال ہیں۔تم میں سے جو کوئی شخص خوش حال ہو جاتا ہے وہ اپنے لباس اور کھانے پر اتنا خرچ کرتا ہے کہ اس کی آمدنی اس کے لیے کافی نہیں ہوتی اور اہل وعیال کی حق تلفی کرنی پڑتی ہے،یا پھروہ شراب نوشی اور کرایہ کی عورتوں میں ا پنی معاش اور معاددونوں کو ضائع کرتاہے۔
پھر مَیں مسلمانوں کی تمام جماعتوں کو عام خطاب کرکے کہتا ہوں۔کہ اے نبی آدم!تم نے اپنے اخلاق کھو دیئے،تم پر تنگ دلی چھا گئی اور شیطان تمہارا محافظ بن گیا،عورتیں مردوں پرحاوی ہوگئی ہیں اور مردوں نے عورتوں کو ذلیل بنا رکھا ہے اور حلال تمہارے لیے بدمزہ بن گیا ہے۔
اے نبی آدم !تم نے ایسی فاسد رسمیں اختیارکرلی ہیں جن سے دین متغیرہوگیا ہے۔ مثلاً روزِعاشور اکو تم جمع ہو کر باطل حرکات کرتے ہو۔ایک جماعت نے اس دن کو ماتم کا دن بنا رکھا ہے۔کیا تم نہیں جانتے کہ سب دن اللہ کے ہیں اور سارے حوادث اللہ کی مشیت سے ہوتے ہیں؟اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس روز شہید کیے گئے تو اور کون سا دن ہے جس میں کسی محبوب خدا کی موت واقع نہ ہوئی ہو؟کچھ لوگوں نے اس دن کو کھیل تماشوں کا دن بنارکھا ہے۔

پھر تم شب برأت میں جاہل قوموں کی طرح کھیل تماشے کرتے ہو اور تم میں ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ اس روز مردوں کو کثرت سے کھانا بھیجناچاہیے۔ اگر تم سچے ہو تو اپنے اس خیال اور ان حرکات کے لیے کوئی دلیل لائو۔پھرتم نے ایسی رسمیں بنارکھی ہیں جن سے تمہاری زندگی تنگ ہو رہی ہے مثلاً شادیوں میں فضول خرچی ،طلاق کو ممنوع بنا لینا،بیوہ عورت کو بٹھائے رکھنا۔اس قسم کی رسموں میں تم اپنے مال اور اپنی زندگیوں کو خراب کر رہے ہو اورہدایات صالحہ کو تم نے چھوڑ دیا ہے حالانکہ بہتر یہ تھاکہ ان رسموں کوچھوڑ کر اس طریق پر چلتے جس میں سہولت تھی نہ کہ تنگی۔پھر تم نے موت اور غمی کو عید بنا رکھا ہے ،گویا تم پر کسی نے فرض کردیا ہے کہ جب کوئی مرے تو اس کے اقربا خوب کھانے کھلائیں۔ تم نمازوں سےغافل ہو،کوئی اپنے کاروبار میں اتنامشغول ہوتا ہے کہ نماز کے لیے وقت نہیں پاتا اور کوئی اپنی تفریحوں اور خوش گپیوں میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ نماز فراموش ہو جاتی ہے۔تم زکوٰۃسے بھی غافل ہو،تم میں کوئی مال دار ایسا نہیں جس کے ساتھ بہت سے کھانے والے لگے ہوئے نہ ہوں،وہ ان کو کھلاتا اور پہناتا ہے مگرزکوٰۃ اور عبادت کی نیت نہیں کرتا۔تم رمضان کے روزے بھی ضائع کرتے ہو اوراس کے لیے طرح طرح کے بہانے بناتے ہو۔تم لوگ سخت بے تدبیر ہوگئے ہو۔تم نے اپنی بسراوقات کا انحصار سلاطین کے وظائف و مناصب پر کر رکھا ہے اور جب تمہارا بار سنبھالنے کے لیے سلاطین کے خزانے کافی نہیں ہوتے تو وہ رعیت کو تنگ کرنے لگتے ہیں۔