مغرب کا ڈایجیٹل انقلاب اسلام اور مسلمانوں کےلئے چیلنج

مغرب کا ڈیجیٹل انقلاب – اسلام اور مسلمانوں کے لیے چیلنج

مغرب کی سائنس وٹیکنالوجی خصوصاً انٹرنیٹ، تصویر ، میڈیا اور موبائل کے نقصانات اور اسلامی اقدار کی تباہی۔ مغربی فلاسفہ اور محققین کی جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت۔ حل کیا ہے؟

[مغرب کی سائنس وٹیکنالوجی خصوصاً انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ریولیوشن نے ایک عالم میں ہنگامہ برپا کررکھا ہے۔ دنیا پر مغربی فکروتہذیب کے غلبے اور مسلمانوں کے اپنے نظریۂ حیات کے صحیح فہم سے دوری نے انہیں مغرب سے اتنا مرعوب بلکہ ان کا فکری غلام بنا رکھا ہے کہ وہ مغرب سے سب کچھ آنکھیں بند کرکے لیتے جارہے ہیں اور رُک کر یہ دیکھنے اور سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ وہ جولے رہے ہیں وہ ان کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔
ٹی وی ، موبائل وغیرہ جب پہلی دفعہ مسلم دنیا میں آئے تو اکثر لوگوں نے سوچا کہ یہ تو بے جان آلے ہیں ان کا غلط استعمال بُرا اور اچھا استعمال مفید ہوگا۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں کے نتائج نے ثابت کردیا ہے کہ ان آلات کے استعمال میں شر ہر حال میں غالب ہے اور اس نے اسلامی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مسلمان خصوصاً ان کی نئی نسل اس ڈیجیٹل ریولیوشن کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ خود مغرب کے اہل دانش اس انسانیت اور مذہب کش ٹیکنالوجی کی مذمت کررہے ہیں لیکن ہماری سیاسی ومذہبی قیادت لمبی تان کر سو رہی ہے۔ کسی کو ہوش نہیں کہ اس مسئلے پر غور کرے۔
البرہان ماضی میں بھی یہ موضوع زیر بحث لاتا رہا ہے اور اس نے کئی اہل علم کے خیالات قارئین کے سامنے رکھے ہیں۔ یہ مضمون بھی پہلے کا تحریر کردہ ہے لیکن موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس پر نظر ثانی کرکے اسے دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں تاکہ وہ اس موضوع پر غور فرمائیں۔ مدیر]
—————–

حال ہی میں امریکہ نے اپنے ہوائی اڈوں پر ایسے سکینرز(scanners) نصب کر دئیے ہیں جو کسی بھی مسافر کی بے لباس تصویر کھینچ سکتے ہیںجسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور جس میں جسم کے ہر حصے کو بڑا کر کے دیکھا جا سکتا ہے اور یہ تصویر رنگین بھی ہوسکتی ہے۔امریکہ نے سیکورٹی اور دہشت گردی کے خلاف مزعومہ جنگ کے نام پر ایسے سکینرز نہ صرف اپنے ہوائی اڈوں پر نصب کردئیے ہیں اور یورپ میں بھی ان کا استعمال شروع ہوگیاہے بلکہ وہ انہیں اپنے زیر اثرطفیلی ممالک ، خصوصاً وہ جو دہشت گردی کے خلاف مزعومہ جنگ کی لپیٹ میں ہیں (جیسے پاکستان) کو بھی بھجواناچاہتا ہے کہ وہ بھی انہیں اپنے ہوائی اڈوں پر نصب کریں اور جیسا کہ ماضی کا تجربہ ہے کہ یہ ممالک جلد یا بدیر اور کچھ مزاحمت کے بعد اسے قبول کر لیںگے۔
پھر جیسا کہ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ کوئی نئی ٹیکنالوجی جب مارکیٹ میںآتی ہے تو ابتداء ً مہنگی ہوتی ہے لیکن مینو فیکچررز اور صنعتکاروں کے پیش نظر چونکہ محض بزنس اورمنافع ہوتاہے لہٰذا ان کا مارکیٹنگ اور سیلز کا شعبہ اور اشتہاری کمپنیاں اسے عام کرنے اور ہر آدمی کے لیے اسے ناگزیر بنانے اور ثابت کرنے میںلگ جاتی ہیں چنانچہ ہر نئی پروڈکٹ کو عوام میںمتعارف کرا کے اس کی سیلز بڑھا دی جاتی ہے اور ہمارے یہاں تو اس سکینر کی ضرورت آسانی سے ثابت کی جاسکتی ہے کیوں کہ دہشت گرد اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر صرف ہوائی جہاز ہی میں سوار نہیں ہوتے بلکہ خود کش جیکیٹس پہنے گلیوں اور بازاروں میں بھی گھومتے رہتے ہیںتاکہ اپنے ٹارگٹ پر پہنچ کر دھماکہ کر سکیں۔اس رجحان اورضرورت کے تحت توقع ہے کہ جلد ہی ان سکینرز کا سائز چھوٹا کر کے انہیں متحرک اور موبائل بنا دیا جائے گا تاکہ سیکورٹی اہل کار اسے اپنی جیب میں ڈالے رکھیں اور کیمرے اور دوربین کی طرح جب بھی ضرورت محسوس کریں اسے استعمال کرلیں اوردہشت گرد مجرم کی شناخت کر کے اسے پکڑ لیں۔ شروع میں یہ سکینر یا کیمرہ سیکورٹی اہل کاروں کے پاس ہوگا پھر جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ، بزنس، مارکیٹنگ اور منافع کی خاطر بہت جلد یہ اوپن مارکیٹ میں آجائے گا اور ہر موبائل فون میں فٹ ہو سکے گا اورہر آدمی اورہر نوجوان کی دسترس میں ہوگا۔یوں ایک نوجوان جب چاہے گا اپنے محبوب کی بے لباس تصویر اپنے موبائل کیمرے میں محفوظ کر لے گا اور وہ ہر آدمی کی دسترس میں ہوگی۔ یہ ہے مغربی ٹیکنالوجی کا وہ تازہ ترین کارنامہ یا پیش رفت جسے ابلیس نے پہلے مرحلے میں ’’ایک حقیقی ضرورت‘‘ کے تحت ایجاد کروایا ہے اور پھر اسے وہ حیاء ، عفت اور پاکیزگی جیسی اسلامی اور اخلاقی اقدار کے خاتمے اور فحاشی، عریانی اور زناء کو عام کرنے کے لیے معاشرے میں پھیلا دے گا ۔
اس صورت حال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے مثلاً یہ کہ کیا مغربی ٹیکنالوجی خلاف اسلام ہے؟ اور اگر یہ خلاف اسلام ہے تو پھر مسلمانوں کا رویہ اس حوالے سے کیا ہونا چاہیے؟ اور آئندہ اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے مسلم معاشرے اور ریاستوں کو کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیے؟ اس موضو ع پر غو رکے لیے ہم نے اس مضمون کو چار مباحث میں تقسیم کیا ہے:
۔ ایک یہ کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسلام کا مؤقف کیا ہے؟
۔ دوسرے یہ کہ اس ضمن میں مغرب نے کیا راہ اپنائی ہے؟
۔ تیسرے یہ کہ مغرب کے موجودہ(پوسٹ ماڈرنسٹ) دانشور اور فلاسفرز اس طرح کے مغربی طرز عمل کے بارے میںکیا رائے رکھتے ہیں؟
۔ چوتھے یہ کہ اس صورت حال میںمسلم امت اورمعاشرے کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟
اب ہم ان چاروں مباحث پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے، واللہ المستعان۔
مبحث اوّل: سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسلام کا مؤقف
۔ اسلام انفس و آفاق کے مطالعے (1) اور اس کے نتیجے میں تسخیر کائنات اور ایجادات بالفاظ دیگر سائنس و ٹیکنالوجی کی حمایت کرتا ہے جس کا ایک لازمی نتیجہ تمدنی ترقی اور انسانی سہولیات میں اضافہ ہے۔
۔ لیکن انفس و آفاق کے مطالعے ، کائنات پر غور و فکر، سیروا فی الارض اور انسانی مشاہدے و تجربے کا نتیجہ قرآن حکیم کے مطابق لازماً یہ ہونا چاہیے کہ وہ انہیں اللہ تک پہنچائے اور انسانوں کی ہدایت کے لیے اس کے پیکج اور ’حق‘ (توحید، رسالت اور آخرت پر مبنی شریعت اور زندگی گزارنے کا مکمل لائحہ عمل ) کے ادراک کی معرفت بہم پہنچائے۔(2)
۔ لہٰذا اسلامی عقیدے اور ورلڈ ویو (تصور انسان، تصور کائنات اور تصور الہ) کے نتیجے میں جو نظریۂ علم اور فلسفۂ علم (epistemology) وجود میں آتا ہے اور اس نظریۂ علم سے علوم و فنون کا جو ڈھانچہ(body of knowledge) تشکیل پاتا ہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا موید ہے۔(3)
۔ اور مسلمانوں نے جب ایک ہزار سال تک دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی تومیرٹ پر کی اور وہ صرف اپنے مستحکم سیاسی نظام، بہترین معاشی ڈھانچے ، انصاف مہیا کرنے والی عدلیہ، سماجی ہم آہنگی پر مبنی اعلیٰ معاشرتی نظام، اسلحے کی برتری اور جہادی جذبے کی حامل فوج….وغیرہ کی وجہ ہی سے نہیں کی بلکہ وہ اس وقت علوم و فنون اورخصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی دوسری اقوام سے کہیں آگے تھے جس کا اندازہ مندرجہ ذیل امور سے کیا جا سکتا ہے:
۱۔ مسلمانوں نے اتنا ہی نہیں کیا کہ یونانی اوررومی تہذیب سے موصول ہونے والی علمی و سائنسی پیش رفت کو محفوظ رکھا بلکہ انہوںنے اسے آگے بڑھایا ،اس میں خاطر خواہ اضافے کیے اور اسے یورپ تک پہنچایا جس نے سائنس و ٹیکنالوجی کو بام عروج تک پہنچا دیا۔
۲۔ سائنس خصوصاً ٹیکنالوجی میں آج جو ہوشربا پیش رفت ہمیں نظر آتی ہے، اس کا ابتدائی کام مسلمان سائنسدانوں نے کیا ہے مثلاً کیمرا(جو آج کی ٹیکنالوجی میں اہم کرداررکھتاہے) مسلم سائنسدان ابن الہیثم (م 1040ء) نے ایجاد کیا۔ آج ہوائی جہاز میں سفر معمول کی بات ہے جب کہ اس کے لیے گلائیڈر اور پیرا شوٹ کے کامیاب تجربات کی ابتداء مسلم سائنسدان اور انجنیئر عباس بن فرناس(م887ء) نے اندلس میں 852ء میں کی تھی۔ آج مشینری میں جو پیش رفت ہو چکی ہے اس کی بنیاد مسلمان انجنیئر الجزری (م1206ء) نے رکھی تھی جب اس نے کرینک شافٹ ، والو اور پسٹن ایجاد کیے ، اس نے ڈنکی پمپ(پانی کھینچنے کی موٹر) اور دنیا کی پہلی مکینیکل واچ بنائی اور اسی لیے اسے روبوٹکس اور آٹو میٹس کا بانی کہا جاتا ہے۔ میکانیات کے سلسلے میں مسلمان انجنیئراحمد بن موسی بن شاکر کا کام قابل ذکر ہے جس کی تصنیف کتاب الحیل(مصنفہ 860ھ) میکانیات پر دنیا کی اولین کتاب ہے جو تخلیقی انداز میں ایک سو میکانکی آلات کی ایجاد کا موجب بنی ہے۔آج کل ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹروں میں جو اوزار استعمال ہوتے ہیں ان میں سے اکثر مشہور مسلمان سرجن ابوالقاسم الزہراوی (م1000ء) کی ایجاد ہیں جس نے 200سے زائد میڈیکل اوزار ایجاد کیے جن میں آنکھوں کے نازک آپریشن کے آلات بھی شامل تھے۔ جابر بن حیان(م850ء) نے 800ء میں عمل کشید(destillation) کے لیے آلات ایجاد کیے اور اپنی لیبارٹری میں ان کا کامیاب تجربہ کیا۔ گندھک اور شورے کے تیزاب بھی اسی کی ایجاد ہیں۔ کیمیائی صنعت میں اس کی جدتوں کی بنیاد پراسے جدید کیمیا کا بانی کہا جاتا ہے۔ ویکسینز کا طریق علاج 1724ء میں ایک برطانوی سفارت کار کی بیوی نے ترکی سے سیکھا اور یورپ میں مروج کیا۔ہوائی چکی (wind mill) ایرانیوں نے 634ء میں ایجاد کی اوراس سے گندم پیسنے اور آبپاشی کے لیے پانی اوپر کھینچنے کا انتظام کیا اور اس طرح ہوا کو بطور انرجی استعمال کرنے کی ٹیکنیک ایجاد کی۔
ڈیفنس انڈسٹری میں زرہ بکتر بنانے کا فن مسلمانوں نے عروج پر پہنچایا اور صلیبی جنگوں میں یورپیوں نے اسے مسلمانوں ہی سے سیکھا۔ جنگوں میں بارود کے استعمال کو بھی مسلمانوں نے رواج دیا اور خالص قلمی شورے(نائٹرک ایسڈ) کا استعمال شروع کیا جو بارود کا جزو اعظم ہے۔ راکٹ اور تارپیڈو بھی مسلمان سائنسدانوں کی ایجاد ہیں۔ جیالوجی میں زمینی محیط کی درست پیمائش کا سہرہ بھی مسلمانوں کے سر ہے۔ الادریسی(م1155ء) نے سسلی میں 1139ء میں دنیا کا پہلا گلوب بنایا جس میں زمین کو گول دکھایا گیا تھا۔ہیئت و فلکیات(سپیس سائنس) میں مسلمانوں کی ترقی تو محیر العقول تھی۔ مسلم دنیا میں رصدگاہوں کی کثرت تھی اور ابن مکنہ نے مصنوعی چاند بنایا جو باقاعدگی سے طلوع ہوتا اور روشنی دیتا تھا۔ فاؤنٹین پین بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے جو935ء میں مصر کے سلطان کے کہنے پر مقامی انجنیئروں نے ایجاد کیا تھا۔ اعداد میں اعشاری نظام اور سکوں کی منتقلی کی بجائے چیک لکھنے کا رواج بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ مسلمان سائنسدانوں نے سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ اور خوشبوئوں کو ملا کر صابن بنانے کا آغاز کیا۔ شیمپو بنانے کا تجربہ ایک ہندی مسلمان نے 1759ء میں برطانیہ میں کیا (4) یہ چند مثالیں مشتے نمونہ ازخروارے ہیں ورنہ ان کی تفصیل کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔
۳۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی ترقی و عظمت کا اعتراف انصاف پسند یورپین محققین اور مفکرین بھی کرتے ہیں چنانچہ ڈریپر(John Draper) کہتا ہے:’’تجرباتی علوم میں مسلمانوں نے علم کیمیا کی بنیاد رکھی اور کیمیا کے کچھ اہم ترین متعاملات جیسے سلفیورک ایسڈ اورالکحل دریافت کیے ۔ انہوں نے طب پر اس علم کا اطلاق کیا۔ سب سے پہلے کتاب الادویہ یا قرابادین شائع کرنے والے یہی لوگ تھے۔ انہوں نے اس میں معادن کی تیاری کے طریقے بھی بتائے۔ میکانیات میں انہوں نے نیچے گرنے والے اجسام سے متعلق قوانین دریافت کر لیے تھے۔ مزید یہ کہ انہوں نے کش ثقل کی اصلیت کے بارے میں غیر مبہم نظریات بھی وضع کرلیے تھے۔ وہ میکانکی طاقتوں کے نظریے سے بھی آگاہ تھے۔طبیعیات کی شاخ ماسکو نیات میں انہوں نے پہلی مرتبہ اجسام کی کثافت اضافی کے جداول مرتب کیے۔ انہوں نے پانی میں اجسام کے تیرنے اور ڈوبنے کے حوالے سے بھی بہت سے رسالے لکھے۔ بصریات میں انہوں نے یونانیوں کی اس غلط فہمی کودرست کیا کہ روشنی کی شعاع جسم میںسے گزر کر آنکھ تک پہنچتی ہے ۔ انہوں نے روشنی کے انعطاف اور انعکاس کے مظاہر کو بھی سمجھ لیا تھا۔ اس دور کے مشہور ماہر بصریات ابن الہیثم نے یہ عظیم الشان دریافت کی کہ روشنی کی شعاع فضاء میں سے خم دار راستے پر سفر کرتی ہے ۔ اس نے ثابت کیا کہ اسی مظہر کی بدولت ہم چاند اور سورج کو ان کے طلوع ہونے سے کچھ دیر پہلے اور غروب ہونے کے کچھ دیر بعد تک دیکھتے ہیں۔ بعض نظریات کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جدید دور کی پیداوار ہیں جیسے نظریہ ٔ ارتقاء کے بارے میں عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ انیسویں اور بیسویں صدی میںپروان چڑھا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء اور نشوونما کے نظریات مسلم دور کی جامعات میں نہ صرف پڑھائے جاتے تھے بلکہ وہ ان نظریات کو آج کی نسبت زیادہ وسعت نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو غیر نامیاتی اور معدنی اشیاء تک پھیلاتے تھے‘‘۔(5)
رابرٹ بریفولٹ (Robert Briffault) نہ صرف مسلمانوں کے سائنسی طرز فکر کی تعریف کرتا ہے بلکہ اسے ہی سائنس و ٹیکنالوجی میں مغرب کی خیرہ کن ترقی کا حقیقی سبب گردانتے ہوئے کہتا ہے ’’اگرچہ یورپ کی ترقی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی تہذیب کے فیصلہ کن اثر کے نشانات موجود نہ ہوں، لیکن یہ اثر کہیں بھی اتنا واضح اور اہم نہیں جتنا کہ اس طاقت کے ظہور میں ہے جو دنیائے جدید کی مخصوص اور مستقل قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے یعنی سائنس اور سائنسی طرز فکر۔‘‘
پھر وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ’’دنیائے حاضر پر اسلامی علوم و فنون کا بڑا احسان ہے۔ عربوں نے علم کے ان تمام سرچشموں سے جو دستیاب ہوسکتے تھے، اپنا علم حاصل کیا۔ انہوں نے قدیم علوم میں تحقیق کی نئی روح پیدا کی۔ ریاضیات کو ترقی دی اور تجربے، مشاہدے اور پیمائش کے اسلوب اختیار کیے۔ عربوں نے یونانیوں کے علمی نظریات پر تنقید بھی کی اور ان میں اضافہ بھی کیا۔ انہوںنے بطلیموس کے علم کائنات کو تو قبول کر لیا، لیکن اس کی فہرست نجوم یا ستاروں کی جدول یا اس کی پیمائشوں کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے خود ستاروں کی بے شمار نئی فہرستیں مرتب کیں، کسوف کے ترچھے پن اور استقبال اعتدالین کی صحیح اقدار معلوم کیں اور سمت الراس کی دو الگ الگ پیمائشوں سے کرۂ ارضی کی جسامت کو معین کیا۔ البیرونی نے معدنیاتی نمونے جمع کیے اور مختلف اشیاء کو الگ الگ تول کر اوزان مخصوصہ کے جو نقشے تیار کیے وہ اب تک صحیح ہیں۔ عربوں نے صفر کا استعمال رائج کرکے ترمیم اعدادکے نظام اعشاریہ کو مکمل کیا۔ انہوں نے الجبرا ایجاد کیا اور اسے چوتھے درجے کی تعدیلات کے حل تک پہنچا دیا۔ انہوں نے علم مثلث کا استعمال شروع کیا اور یونانیوں کے وتر(chord) کی جگہ جیب زاویہ اور مماس(tangentine)کو ترویج دی۔ البتانی نے سورج کے اوج مدار کی حرکت کا انکشاف کیا اور ابوالوفاء نے قمر کے ثانوی اختلافات کا پتا چلایا۔ ابن الہیثم نے قوس قزح پر لکھا۔ اس طرح انہوں نے انسانی تحقیق و تجسس کی قوتوں میں ہزار گنا اضافہ کیا اور یورپ کی نشاۃثانیہ عربی علوم و فنون کے مطالعے ہی کے زیر اثر وجود میں آئی‘‘۔(6)
’تاریخ سائنس ‘ کا مصنف جارج سارٹن کہتا ہے کہ : ’’گیارہویں صدی عیسوی میں علم و حکمت کا حقیقی ارتقاء مسلمانوں کا رہین منت تھا۔ اس زمانے کی اچھوتی اور نادر خدمات کا تعلق ریاضی سے ہے اور اوّل سے آخر تک مسلمانوں ہی کی سعی و کاوش کا نتیجہ ۔ عمر خیام ان کا سب سے زیادہ فطین اور بدیع الفکر نابغہ ہے جو اس عہد میں گزرا اور جس کی اہم تخلیقات کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں۔ مسیحی ریاضی دانوں کی جدوجہد سے اگرچہ کاوش اور سرگرمی کا اظہار ہوا، بایں ہمہ ان کی سطح اس قدر پست تھی کہ اس سے اسلامی کوششوں کے انحطاط کی تلافی نہیں ہوئی۔ پھر اس انحطاط کے باوجود اس وقت کے بعض مسلمان علماء کے کارنامے بڑے شاندار اور معرکہ خیز ہیں‘‘۔(7)
غرض یہ کہ خوداہل مغرب تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کا سفر جن انجانی بلندیوں کی طرف تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے اور جس نے ایک نئے اور مضبوط سائنسی کلچر کی بنا رکھ دی ہے اس کی بنیادوںکو مسلمان سائنسدانوں کی کاوشوں ہی نے اساسی پختگی عطاکی ہے۔

۵۔ لیکن علوم و فنون کی اس ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں اس پیش رفت نے مسلمان معاشرے کے لیے کوئی اخلاقی اور نظریاتی مسائل کھڑے نہیں کیے اور نہ اس نے مسلم معاشرے میںکسی نظریاتی کشمکش کو جنم دیا کیونکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی یہ ترقی اس نظریۂ علم کی پیداوار تھی جو اسلامی ورلڈ ویو کی روشنی میں ابھرا تھا بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی اس ترقی نے مسلم معاشرے کی تہذیبی برتری اور تمدنی ترقی کو چار چاند لگا دئیے کیونکہ یہ اس کے مجموعی تہذیبی مزاج سے ہم آہنگ تھی نتیجتاً اس نے مسلم معاشرے کی ترقی اور اس کے تہذیبی ارتقاء میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا اور اس کے حسن و جاذبیت میں اضافہ کیا۔(8)

مبحث دوم: مغرب میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی
۱۔ مغرب نے بلاشبہ اکثر علوم اور خصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی میں محیر العقول ترقی کی ہے اور یہ ترقی اس کی قوت (خصوصاً حربی قوت) اور دنیا پر اس کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی غلبے کا ایک بنیادی اور اہم ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مذہبی اور اخلاقی اقدار کی نفی کرتی ہے خصوصاً ان دینی اقدار کی جن کا علمبردار اسلام ہے(یہ بحث آگے آرہی ہے کہ مغربی سائنس و ٹیکنالوجی بلااقدار(value-neutral) نہیں ہے) بلکہ اگر ہم وسیع انسانی تناظر میں دیکھیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے انسان کے مسائل کے حل کرنے کی بجائے اس کے دکھوں اور تکلیفوں میں اضافہ ہی کیا ہے(گو اس نے بلاشبہ انسانوں کو بہت سی تمدنی سہولتیں بھی بہم پہنچائی ہیں)۔ لیکن پیشتر اس کے کہ ہم ان وجوہ پر غور کریں جو مغربی تہذیب کے اس مظہر کی بنیاد ہیں، مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے مغربی تہذیب کی پیداکردہ ٹیکنالوجی پر یہ جو اعتراض کیا ہے اس کی کچھ تفصیلات بیان کردیں تاکہ ہمارا مذکورہ دعوی محض نعرہ اور دعویٔ بلا دلیل بن کر نہ رہ جائے۔ہم ان تفصیلات کا ذکر دو عنوانات کے تحت کریں گے۔ ایک مغربی ٹیکنالوجی کے اسلامی اقدار کے خلاف ہونے کے حوالے سے اور دوسرے اس کے عمومی طور پر انسان کی فطرت اور اس کے تعمیری رجحانات اور اخلاقی مفادات کے خلاف ہونے کے حوالے سے۔
۲۔ مغربی ٹیکنالوجی اسلامی اقدار کے خلاف ہے
۔ جب ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈرآیا تو اس نے مسلمانوں کے اندر موسیقی اور گانوں کا شوق ابھارا حالانکہ اسلام میں موسیقی منع ہے(9) اور گانے اکثر و پیشترمخرب اخلاق مواد پر مشتمل ہوتے اور طبیعت کو اللہ کی اطاعت کی بجائے فسا دکی طرف مائل کرتے ہیں۔
۔ ٹی وی کی ایجاد نے ریڈیو کے نقصانات کو دوچند کردیا۔ یہ عورت کو بنائو سنگھار اور غیر ساتر لباس کے ساتھ پیش کرتا ہے جب کہ اسلام غیر محرم عورت کو ایک نظر دیکھنے سے بھی منع کرتاہے۔(10) اس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ ٹی وی کے اکثر پرو گرام خلاف اسلام اور غیر تعمیری ہوتے ہیں اور انہیں واضح طور پر لھو و لعب قرار دیا جا سکتا ہے۔ ٹی وی کا فحاشی اور عریانی پھیلاناایک ناقابل تر دید حقیقت ہے جس سے حیا و عفت جیسی اسلامی اقدار کا خاتمہ ہوتاہے۔(11)
۔ ٹی وی اور سینما کے پروگراموں کا ایک ناگزیر جزو اداکاری ہے جس سے اسلام منع کرتاہے۔ پھر مغرب نے ناچنے گانے والوں کو ’سٹار‘ اور ’آرٹسٹ‘ بنا کر اورمعاشرے میں معزز اور اہم بنا کر پیش کیا تاکہ عام لوگ ان کی پیروی کریں جب کہ اسلامی معاشرے میں اس کے برعکس عزت کا معیار تقویٰ اور علم ہے نہ کہ گانا بجانا۔(12)
۔ انٹر نیٹ کی سہولت نے فحش ، لچر اور بے ہودہ پروگراموں کو ہر شخص کو گھر بیٹھے اس کی دسترس میں دے دیا اور ایک مسلمان طالب علم یا نوجوان بڑی آسانی سے ان بیہودہ پروگراموں کو دیکھتا اور ان سے متاثر ہوتا ہے جب کہ والدین کو خبر بھی نہیں ہوتی اور نہ وہ اس پر چیک رکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ رات کو اکیلا اپنے کمرے میں بیٹھا کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے ذریعے گندے پروگرام دیکھ سکتا ہے اور گھر میں کمپیوٹر نہ ہو تو ہر گلی محلے میں نیٹ کیفے کھلے ہوئے ہیں جہاں وہ معمولی کرایہ دے کر کمپیوٹراستعمال کر سکتا ہے۔
۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے نکال دی ہے جو محض فون نہیں بلکہ اس میں کیمرہ بھی ہے، ٹیپ ریکارڈر بھی ہے اور ایک نوجوان مسلمان لڑکی یا لڑکا جس سے چاہے اور جب چاہے رابطے میں رہ سکتا ہے اور مغربی فون کمپنیوں نے پاکستان میں نوجوانوں کے اخلاق بگاڑنے کے لیے انہیں رات کے وقت گھنٹوں گپ شپ کے مواقع برائے نام چارجز پر مہیا کر دئیے ہیں ۔حج کے دوران کعبہ کا طواف کرتے ہوئے بھی لوگوں کے موبائل فونوں کی گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں اور فلمی دھنوں کی موسیقی طواف کرنے والوں کو جبراً سننا پڑتی ہے اور ان کا حج خراب کرتی ہے۔
۔ ریڈیو، ٹی وی، ڈی وی ڈی ، انٹر نیٹ ، موبائل اور میڈیا (پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل) کے ذریعے جو فحاشی و عریانی پھیلتی ہے اور رابطے کی جو سہولت میسر آتی ہے اس کا لازمی نتیجہ رنگین مزاجی ، حیاو عفت کا خاتمہ، لہو ولعب، لذت پرستی اور فسادِ اخلاق ہے جس کی آخری صورت غیر قانونی جنسی تعلقات اورزنا ہے جو کبیرہ گناہ ہے، اسلامی معاشرت کا قاتل ہے اور سر تا پا فساد ہے اور اسی لیے اسلام نے اس کی سزا سو کوڑے یا رجم (پتھر مارنے سے موت) رکھی ہے۔(13) گویا یہ ٹیکنالوجی اورآلات مسلم معاشرے میں زنا جیسے کبیرہ گناہ اور شنیع فعل کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
۔ ریڈیو، ٹی وی اور تھیٹر نے عورت کا کردار منفی انداز میں بدلا ہے۔ اس نے عورت کو ناچنے اور گانے والی ، دوسروں کا دل بہلانے والی ، کسبی اور شمع محفل بنادیاہے جب کہ اسلام اسے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنے والی ماں اور گھر کا نظام چلا کر خاوند کا بوجھ بٹانے او ر سکھ دینے والی بیوی کا روپ دیتاہے۔(14)
۔ ٹی وی نے مسلم معاشرت کی باہمی اخوت و مودت کی قدروں کو مجروح کیا ہے۔ پہلے مرد دن بھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر شام میں کسی مشترک جگہ پر مل بیٹھتے تھے(گائوں سے لے کر شہر تک ایسی جگہ ضرور ہوتی تھی جسے بیٹھک ، دارہ، دائرہ،چوپال۔۔۔وغیرہ کہتے تھے۔)۔ اسی طرح عورتیں فارغ اوقات میں گلی محلے میں مل بیٹھتی تھیں۔ ان غیر رسمی مجلسوں میں مسائل زیر بحث آتے تھے اور ان کا حل سامنے آتا تھا۔ حل نہ بھی نکلے تو کتھارسس اور مشاورت اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شرکت اور سانجھ گیری کے فائدے مل جاتے تھے ۔ اب لوگ کام کاج سے فارغ ہو کر گھرمیںٹی وی کے سامنے آبیٹھتے ہیں اور معاشرتی میل جول ختم ہو کر رہ گیاہے۔
۔ بچے پہلے فارغ اوقات میں اپنی ماں یا دادی یا نانی سے سبق آموز کہانیاں سنتے تھے جن سے اخلاقی و تہذیبی اقدار نئی نسل میں منتقل ہوتی تھیں۔ اس سے انسانی تعلقات میں گہرائی پیدا ہوتی تھی اور بچوں کی ماں باپ سے محبت بڑھتی تھی۔لڑکے کھیتوں یا پارکوں میں جا کر کھیلتے تھے جس سے ان کا جسم مضبوط ہوتا تھااور مشقت کی عادت پڑتی تھی۔ ٹیم ورک میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا، لیڈر کی اطاعت کرنا، باہمی ایڈجسٹمنٹ، جیتنے کی خوشی اور ہار سہارنے کا سلیقہ پیدا ہوتا تھا۔ لڑکیاں فارغ اوقات میں گھر داری سیکھتی تھیں ۔ کھاناپکانا ، سویٹر بننا، کپڑے سینا، کڑھائی کرنا….یہ سب لڑکیوں کے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہوتا تھا اور ان کے مستقبل میں کام آتا تھا لیکن اب بچے ٹی وی اور کمپیوٹر کے سامنے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے اور مذکورہ سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔(15)
۔ اس ٹیکنالوجی کا ایک مظہروہ اشیاء و آلات ہیںجو منع حمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یورپ میں چونکہ عریانی و فحاشی عام ہے، باہم رضامندی سے زنا کی وہاں قانوناً اجازت ہے لہٰذا کنواری لڑکیوںکو خصوصاً ان آلات کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ آلات ہر جگہ خصوصاً سکولوں، کالجوں میں ، یہاں تک کہ ان کے باتھ روموں میں مہیاکیے جاتے ہیں تاکہ لڑکیاں کچی عمر میں حاملہ نہ ہوجائیں۔ امریکہ و یورپ یہ آلات مسلمان معاشروں میں بلا قیمت یا برائے نام قیمت پر بھجواتے ہیں بلکہ مسلم ممالک کو اس صنعت کی ٹیکنالوجی مہیا کر تے اور فیکٹریاں لگا کر دیتے ہیں اور اس مقصد سے مسلمان حکومتوں کو کثیر مقدار میں فنڈز مہیا کرتے ہیںاور ان سے وزارتیں اور محکمے بنواتے ہیں تاکہ یہ مانع حمل اشیاء مسلم نوجوانوں کو بسہولت ہر جگہ میسر آجائیں۔ اس کے لیے بظاہر یہ مقصد بیان کیا جاتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جائے لیکن ظاہر ہے کہ اس سے یہ خفیہ مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ مسلمان نوجوانوں کے اخلاق تباہ ہوں اور انہیں بدکاری کی ترغیب ملے۔ بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا خود ایک متنازعہ مسئلہ ہے کیونکہ بہت سے مسلمان دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں لہٰذا آبادی کم کرنے کی بجائے وسائل کے بہتر استعمال کی حکمت عملی پر عمل کرنا چاہیے۔ نیز وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یورپ و امریکہ کی اپنی آبادی چونکہ مسلسل کم ہورہی ہے (ان کے غلط نظریات اور فرسودہ لائف سٹائل کی وجہ سے )اور مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہ امریکہ و یورپ میں پھیل رہے ہیں لہٰذا ان کے نزدیک یہ بھی اہل مغرب کی سازش ہے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کم کرنے کی ترغیب دی جائے۔(16)
۔ اور اب امریکہ و یورپ نے باڈی سکیننگ کا نظام وضع کر کے مسلمانوں کو مشکل میں ڈال دیاہے اور اگر یہ سہولت عام ہوگئی تو جو طوفان بدتمیزی بلکہ طوفان بے شرمی و بے حیائی برپا ہوگا اس کا محض تصور ہی دل دہلادینے والا ہے اور ظاہر ہے اس سے اسلامی تعلیمات و اقدار کی نفی ہوگی بلکہ یہ کشمکش شروع بھی ہوگئی ہے اور یورپ و امریکہ میں کئی مسلمان مردوں اور عورتوں نے ان سکینرز سے گزرنے سے انکار کردیا ہے اور جرمانہ ادا کرنا اورسفر نہ کرنا قبول کر لیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔

مغربی سائنس و ٹیکنالوجی غیر تعمیری اورانسانی فطرت کے خلاف ہے
مغرب نے سائنس و ٹیکنالوجی میںجو ترقی کی ہے بلاشبہ اس نے انسان کو بہت سی سہولتیں بھی بہم پہنچائی ہیں مثلاً انسانی ضروریات کی اشیاء کی وسیع پیداواری صلاحیت(مشینری کا استعمال اور انڈسٹریلائزیشن)، نقل و حمل کے تیز ترین اور آرام دہ ذرائع(کاریں، بسیں، ریل اور ہوائی جہاز)، معلومات کی فراوانی اور فراہمی میں تیزی اور سہولت(ریڈیو، ٹی وی اور انٹر نیٹ)، موسموں کی شدت سے بچانا(پنکھے، ائیرکنڈیشنر، ہیٹرز): سماجی زندگی کی سہولتیںجیسے ہر گھر میں پانی ، روشنی (بجلی ) اور ایندھن (سوئی گیس اور تیل کے چولھے ) کی فراہمی اور اخراج فضلہ (سینی ٹیشن ) کی سہولت۔۔وغیرہ ۔ یہ ساری سہولتیں اور آسانیاں بجا اور قابل تعریف لیکن خالص انسانی نقطۂ نظر سے سوچئے تو اس کے منفی پہلو بھی بہت سے ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کو مصیبت اور آزار سے دور چارکررکھا ہے مثلاً:
۱۔ مشینوں کے وسیع استعمال نے ہیوی انڈسٹری کو وجود بخشا اور وسیع پیداواری نے انڈسٹریلائزیشن کو جنم دیا لیکن اس سے انسانی دست کاری اور صنعت و حرفت ، کاٹیج انڈسٹری اور چھوٹی صنعتیں دم توڑ گئیںجن سے لاکھوں کروڑوں انسان بے روز گار ہوگئے اور ان کے لیے معاشی ، سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوگئے۔(17)
۲۔ سہولتوں کی کثرت نے انسان کو جسمانی مشقت و محنت سے دور کردیا ہے اور اس کی غذائی عادات بگڑ گئی ہیں جن سے انسانی صحت پر برے اثرات پڑے ہیں، بیماریوں کی کثرت ہوگئی ہے اور انسانی اوسط عمر بھی کم ہوگئی ہے۔
۳۔ انڈسٹریلائزیشن نے انسانی ماحول کو آلودگی (Environment Polution) سے بھر دیا ہے جو اس وقت انسانیت کا بہت بڑا مسئلہ بن گیاہے۔ اس نے پانی اور ہوا تک کو آلودہ کر دیا ہے جس کے نہ صرف انسانی صحت پر بہت بُرے اثرات پڑرہے ہیں بلکہ یہ خطرہ دن بدن مہیب ہوتا جا رہاہے کیونکہ اس نے اوزون گیس کے اس فضائی حصار کو بھی توڑ نا شروع کردیاہے جو اہل زمین کو ’آسمانی بلائوں‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے خالق کائنات نے فراہم کیا تھا۔ اس سے زمین کے موسم بگڑنا شروع ہوگئے ہیں، کرہ ٔ ارض پر درجہ حرارت بڑھ رہاہے اور گلیشیئر پگھلنا شروع ہوگئے ہیں اور بعید نہیں کہ کسی وقت اوزون گیس کا یہ حصار پھٹ جائے او ر قیامت آجائے۔(18)
۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے دنیا کے قوی ممالک نے انتہائی تباہ کن ہتھیار بنا لیے ہیں ۔ جاپان پر ایک ایٹمی حملے نے لاکھوں انسانوں کو ختم کردیا بلکہ ہر قسم کے جانداروں اورنباتات کو بھی نیست و نابود کردیا اور زندگی کو جہنم بنا دیا۔ اب تو اس سے بھی زیادہ تباہ کن کیمیائی اور نیوکلیئر ہتھیار وجود میں آگئے ہیں اور اگر خدانخواستہ زمین پرنیوکلیئر جنگ چھڑ گئی (یاد رہے کہ بڑی اورطاقتور قوموں کے چھوٹے ممالک اور اقوام پر حملے اور ظلم و ستم بھی جاری ہیں) تو پورا کرۂ ارض تباہ و برباد ہوجائے گا۔(19)
۔ بلا شبہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی نے انسان کوسہولتیں مہیا کی ہیں لیکن یہ بھی تصور کیجئے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانوں سےکیا قیمت وصول کررہی ہے مثلاً یہی دیکھئے کہ بجلی اور مشینوں کے استعمال سے خصوصاً بسوں، ٹرکوں، کاروں، ریلوں اور ہوائی جہاز کے حادثوں میں کتنے لاکھ انسان سالانہ مرتے اور زخمی ہوتے ہیں ۔
۔ مغربی سائنس و ٹیکنالوجی نے جس طرز زندگی اور طرز فکر کو جنم دیا ہے اس نے انسان کو یا تو مشین بنا دیا ہے یا حیوان، انسان بہر حال نہیں رہنے دیا۔نتیجتاً اس غیر فطری زندگی نے انسان کو خوشی اور اطمینان سے محروم کردیا ہے اور اس کی زندگی کو تنہائی اور دکھوں سے بھر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا سے زیادہ سرمایہ اور ساری دنیا سے زیادہ سائنس و ٹیکنالوجی کی سہولتیں امریکہ و یورپ میں ہیں لیکن دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنہائی ، ذہنی بیماری اور بے مقصدیت وہیں ہے۔ سب سے زیادہ نفسیاتی ہسپتال اور پاگل خانے بھی وہیں ہیں، سب سے زیادہ خود کشیاں بھی وہیں ہوتی ہیں، سب سے زیادہ اولڈ ہوم بھی وہیں ہیں اور سب سے زیادہ جرائم بھی وہیں ہوتے ہیں۔(20)
ان ساری خرابیوں اور بُرے نتائج سے صرفِ نظر اور درگزر کرنا اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے گن گاتے چلے جانا نہ معلوم عقل و دانش کی کون سی قسم ہے؟

مغربی ٹیکنالوجی میں خرابی کا سبب
اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد کہ مغربی سائنس و ٹیکنالوجی نے انسانوں کو بعض سہولتیں بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان کے دکھوں اور تکلیفوں میں اضافہ کیا ہے بلکہ وہ اسلامی تعلیمات و اقدار کی نفی بھی کرتی ہے آئیے اب اس سوال پر غور کریں کہ ایسا کیوں ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی کا مزاج و کردار بحیثیت مجموعی انسانی فطرت اور اسلام کے خلاف ہے؟ اس کا سادہ، واضح اور شافی جواب یہ ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی اس لیے غیر اسلامی، غیر انسانی اور غیر فطری ہے کہ وہ ایسے نظریۂ علم کی پیداوار ہے جو غلط ہے اور مغربی نظریۂ علم اس لیے غلط ہے کہ وہ غلط نظریۂ حیات اور غلط ورلڈ ویو کی پیداوار ہے ۔ جو کچھ ہو رہاہے وہ بالکل منطقی او ر طبعی ہے، یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ غلط ورلڈ ویو کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ مغربی تہذیب جس غلط فکر پر مبنی ہے اس کا لازمی نتیجہ فساد فی الارض ہی ہوناتھا جس کے آخری نتیجے کے طور پر یہ تہذیب تباہ ہو کر رہے گی۔
غلط نظریۂ علم کے اثرات
نظریۂ علم اگرچہ فلسفے کا ایک دقیق مبحث ہے لیکن ایک عام قاری، جو فلسفہ اور خصوصاً فلسفۂ علم کا سنجیدہ طالب علم نہ ہو، اس کے لیے بھی یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ نظریۂ علم کے اثرات علم اور علوم و فنون کے ڈھانچے پر کیوںکر پڑتے ہیں؟ نظریۂ علم جن سوالات سے بحث کرتا ہے وہ یہ ہیں کہ علم کا منبع و مصدر کیا ہے؟ علم کا موضوع و مقصد کیا ہے؟ علم کی اقسام کیا ہیں؟ کون سا علم مفید اور اچھا ہے اور کون سا علم بُرا ہے؟ کون سا علم حاصل کرنا چاہیے اور کون سا چھوڑ دینا چاہیے؟وغیرہ۔ مغربی نظریۂ علم ان سوالات کے جو جو ابات دیتا ہے وہ مختصراً یہ ہیں کہ علم کا منبع خود انسان کی ذات ہے، اس کی عقل اور اس کا مشاہدہ وتجربہ ہے ۔ حقائق صرف وہ ہیں جو حواس خمسہ کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتے ہیں اور حتمی اور حقیقی علم صرف ان معلومات کا نام ہے جو ہمیں آنکھوں سے دیکھنے، کانوں سے سننے ، ہاتھوں سے چھونے، ناک سے سونگھنے اور زبان سے چکھنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ وہ معلومات اور حقائق ہیںجو قابل تصدیق (verifiable) ہیں جن کی ہم تجربہ گاہ میں توثیق کرسکتے ہیں اور اپنے تجربات سے ان کا صحیح ہونا ثابت کرسکتے ہیں۔ (21) جہاں تک ان نظریات کا تعلق ہے جو فلسفی عقل محض سے قائم کرتے ہیں اور انسان اور انسانی زندگی سے متعلق ان عقائد و نظریات کا تعلق ہے جنہیں اہل مذہب یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ یہ انہیں(پیغمبروں کی وساطت سے ، فرشتے کے ذریعے) کسی بالا ترہستی(ا%D