نصاب کی اسلامی تشکیل

نصاب کی اسلامی تشکیل

بنیادی سوال
کن اقدارِ حیات کے تناظر میں ،کن مقاصدتعلیم کی تکمیل کے لیے ،کس قسم کا مواد تعلیم وتربیت، کس قسم کے ماحول میں ، کس ابلاغی حکمت عملی کے تحت طالب علم کو بہم پہنچانا ہے اور اس کی اثر پذیری کس نظام امتحان اور معیار جائزہ کے تحت جانچی جانی ہے۔
نصاب کیا ہے؟
محولہ بالا سوال کے جواب کی روشنی میں نصاب تعلیم کے مندرجہ ذیل اجزا سامنے آتے ہیں (الف) اقدار حیات (ب)مقاصد تعلیم (ج) مواد تعلیم وتربیت (د)درسی کتب (ھ) استاد۔ (و) ابلاغی حکمت(ز )نظام جائزہ و امتحان۔
اجزائے نصاب کی نوعیت
اقدارِ حیات: ہمارے لیے اقدار حیات طے شدہ ہیں اور وہ ہیں اسلامی اقدار حیات مقاصدِ تعلیم : ہماری تعلیم کا مقصداولیٰ عقیدہ وعمل کے لحاظ سے مثالی مسلمان شخصیت کی تعمیر ہے۔ باقی مقاصد کی حیثیت ذیلی ہے۔
موادِ تعلیم وتربیت
موجودہ صورت حال میں مواد تعلیم جن علمی ذخائر سے اخذ کیا گیا ہے ان کا اساسی اور تشکیلی فلسفہ مغربی فکر پر مبنی ہے۔ مغربی فکر پر اس وقت منطقی قبولیت کی حکمرانی ہے جو اصلاً انکار خدا کا علمبردار ہے۔ علمی ذخائر کو ان فلسفیانہ آلودگیوں سے پاک کرنا ضروری ہے۔
درسی کتب
درسی کتب کی تشکیل کون سی ثقافتی، نظریاتی اور فلسفیانہ بنیادوں پر کی گئی ہے؟درسی کتب کی تشکیل مقامی ثقافتی اور اسلامی نظام حیات کے فلسفے پر مبنی ہونی چاہیے۔
تعلیمی ادارے کا سماجی ماحول
تعلیمی ادارے کا سماجی ماحول کن عادات واطوار،کن اقدار،کن رویوں اور جذبوں کی ترویج کرتا ہے؟ اسلامی نصاب کا تقاضا ہے کہ تعلیمی ادارے کا سماجی ماحول اس طرح ڈھالاجائے کہ وہ اسلامی عادات و اطوار،اسلامی اقدار حیات اور اسلامی رویوں اور جذبوں کی ترویج کرے۔
استاد
ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ استاد ہی اصل نصاب ہے۔ استاد جب کمرئہ جماعت میں داخل ہوتا ہے تو نصاب کے تمام مظاہر معلوم ہو جاتے ہیں اور استاد ہی نصاب کے تمام مظاہر کی مجسم صورت میں طالب علم کے سامنے ہوتا ہے۔اس لیے عقیدہ وعمل کے لحاظ سے، عادات واطوار کے لحاظ سے، شکل وصورت کے لحاظ سے اور رویوں اورجذبوں کے لحاظ سے استاد کا ایک مثالی مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ورنہ نصاب کے باقی تمام اجزاء کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کے باوجود محض استاد پر توجہ نہ دینے سے ساری مساعی اکارت ہو جاتی ہیں۔
ابلاغی حکمت عملی
ابلاغی حکمت عملی یا کلاس روم کا ڈلیوری سسٹم اگر چہ استادکی صور ت میں مجسم نصاب کا حصہ ہے لیکن اس کا علیحدہ تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ اس مطلوبہ ڈلیوری سسٹم میں مؤثر طریق ابلاغ میں جدید تحقیقات اور ٹیکنالوجی پر مبنی پُرتاثیر طریقوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے معلمانہ اسؤہ سے استفادہ بھی ضروری ہے۔
نظامِ جائزہ وامتحان
نظام جائزہ وامتحان استاد کے بعد اور بعض اوقات استاد سے بھی بڑھ کر وہ اہم عامل ہے جو نصاب کی پوری صورت گری اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہماری موجودہ تعلیم وتدریس ہے جو مکمل طور پر(Examination oriented)ہے۔ تعلیم وتربیت میں ہمیں حقیقتاً کیا مطلوب ہے اس کا اظہار امتحان کی نوعیت سے ہوتا ہے۔ اس لیے نظام جائزہ وامتحان کو اقدارِ حیات اور مقاصدِ تعلیم کا صحیح آئینہ دار ہونا چاہئے۔
تجاویز وسفارشات
بیان کردہ فکری ڈھانچہ کی روشنی میں مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں:
۱۔ موجودہ ذخائر علم کو فکری آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے اور علم کی اسلامی تشکیل جدید کے یے وسیع پیمانے پر تحقیق اور تدوینِ نو کی ضرورت ہے جس کا سرکاری اور غیر سر کاری سطح پر اہتمام ہوناچاہیے۔
۲۔ پورے ملک میں واحد اور یکساں نصاب رائج ہونا چاہئے اور کسی بھی سرکاری، غیرسرکاری یا مشنری ادارے کو اس سے استثناء نہیں ملنا چاہیے۔
۳۔ سول ٹیکسٹ بک (Sole Textbook)کی بجائے متبادل درسی کتب کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے لیکن ان کے استعمال کی منظوری اس مقصد کے لیے قومی سطح پر قائم کیا گیا ایک تعلیمی بورڈ دے جو ماہرین تعلیم اور علماء پر مشتمل ہو جو یہ دیکھے کہ آیا کتاب اسلامی اقدارحیات، متعین نصاب، اسلامی ثقافت اور طے کردہ مقاصد تعلیم کے عین مطابق ہے۔
۴۔ اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں اساتذہ کے انتخاب کا ایک معروضی معیار طے کیا جائے۔اس معیارکی روشنی میں منتخب کردہ افراد کی اقامتی تربیتی اداروں میں پیشہ ورانہ تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جائے اور ان کی شخصیت مقامی مسلمان کی شکل میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ اساتذہ کے تربیتی نصاب میں قرآن وسنت اور حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے معلمانہ پہلو کو زیادہ جگہ دی جائے۔
۵۔ تعلیمی اداروں کے سماجی ماحول کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کے لیے اصول وضوابط تیار کیے جائیں اور انہیں قانون سازی( Legislation)کے ذریعے سے ایجوکیشن کوڈ کا حصہ بنایاجائے۔
۶۔ نصاب تعلیم برائے ابتدائی درجا ت میں قرآن وحدیث کا نسبتی حصہ بڑھایا جائے۔نصاب اسلامیات اس طرح کا ہو کہ اس سے طالب علم کے سامنے اسلام کا ایک جامع اور متحرک تصور آئے۔
۷۔ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن او ر دسویں جماعت تک قرآن با ترجمہ کی تکمیل لازمی ہو۔
۸۔ سماجی علوم کے نصاب میں ابتدائی درجات میں صرف اسلامی تصورات پیش کیے جائیں جب کہ کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں اسلامی تصورات کے ساتھ عصر ی تصورات تنقیدی وتجزیاتی تناظر میں پیش کیے جائیں۔
۹۔ ابتدائی درجات کے نصاب اور درسی کتب میں کوئی ایسا تصور شامل نہیں ہوناچاہیے جو اسلامی نظریۂ حیات کے منافی ہو۔
۱۰۔ قومی، اسلامی اور بین الاقوامی عصری ضرورتوں کے پیش نظر زبانوں کی تدریس کے لیے مندرجہ ذیل فارمولا استعمال کیا جائے:
(i)پہلی دو جماعتیں صرف اردو
(ii)تیسری سے آٹھویں اردواور عربی
(iii)نویں سے دسویں تک اردو،عربی ،انگریزی یا کوئی اورجدید غیر ملکی ز بان
(iv)گیارھویں تا بارھویں اردو۔انگریزی یا کوئی اور جدید غیر ملکی زبان
(v)بی ۔ اے بی۔ ایس سی انگریزی یا کوئی اورجدید غیرملکی زبان
۱۱۔ غیرممالک میں لکھی گئی درسی کتب کے سکول کی سطح پر اندرون ملک استعمال پر مکمل پابندی ہو۔
۱۲۔ فر ضِ عین کی سطح کا علم جو ہر مسلمان کے لیےضروری ہے اس کی تکمیل آٹھویں جماعت تک کردی جائے۔
۱۳۔ میٹرک پاس کرنے والا ہر نوجوان کوئی نہ کوئی پیداواری مہارت ضرور سیکھے۔ پیداواری مہارتوں کی تدریس کا ایک وسیع تنوع نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔
۱۴۔ صحت کی تعلیم، جسمانی وعسکری تربیت، تعلیم کے تمام مرحلوں کے نصاب کا لازمی حصہ ہونی چاہیے۔
۱۵۔ اعلیٰ تعلیم کے نصاب میں تحقیقی سرگرمیوں کو زیادہ وزن دینے کی ضرورت ہے جس میں تحقیق کی اسلامی روایت کو زندہ کیا جائے۔
۱۶۔ نصاب تعلیم میں وسعت لانے کے لیے اور علم وتحقیق کی زیادہ مقدار طلباء تک پہنچانے کے یے ایام تدریس اور اوقات تدریس میں ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے۔
۱۷۔ تعلیم کی اسلامی تشکیل کے لیے قومی سًطح پر منظور شدہ نکات پر مبنی ایک جامع ایجوکیشن ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔