تعمیرِ سیرت میں قلب کا کردار
قرآن وسنت اور جدید سائنس کی روشنی میں

ہمارے ہاں مغربی فکروتہذیب سے متاثر اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تعمیرِ سیرت اور تشکیل اعمال میں انسانی دماغ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ لوگوں کا یہ تاثر جدید میڈیکل سائنس کی مہیا کردہ معلومات پر مبنی تھا لیکن سائنس چونکہ عقلی تگ وتاز پر منحصر ہے لہٰذا اس کے نظریات اور نتائج بدلتے رہتے ہیں چنانچہ سائنس کی جدید ترین تحقیق یہ ہے کہ انسانی تعمیرِ سیرت میں قلب کا بھی بنیادی کردار ہے ۔ جبکہ قرآن وسنت تو پچھلے چودہ سو سال سے کہہ رہے ہیں کہ تعمیرِ سیرت میں قلب بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی موضوع کو ہم نے اس مضمون میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
انسانی قلب یا دل کے دوفنکشن ہیں یا اس کی دو جہتیں اور دوحیثیتیں ہیں ۔ایک یہ کہ وہ صنوبری شکل کا گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جو جسم کو خون پمپ کرتاہے اور دوسرے یہ کہ وہ ایک فیکلٹی ہے، صلاحیت ہے، قویٰ معنوی ہے، لطیفۂ ربانی ہے جو جذبات واحساسات رکھتاہے، منبعِ ذہانت ہے، محلِ تفکروتدبر ہے اور انسانی فکروعمل کو متاثرکرتاہے۔
ہم چونکہ مسلمان ہیں لہٰذا ایک اللہ کو مانتے ہیں اور اس اللہ نے ہماری ہدایت کے لیے کتاب اتاری ہے(قرآ ن مجید) اوراس میں اس نے اپنی جو صفات گنوائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ’العلیم ‘ہے{ FR 11835 } یعنی وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے{ FR 11836 }، وہ منبع علم ہے { FR 11837 } اور اس کا علم حقیقی ،حتمی اور سچاہے{ FR 11838 }۔ ہمیں حواس سے اور دوسرے ذرائع سے جو علم ملتا ہے وہ اگراس علم حقیقی کے مطابق ہو تو وہ صحیح ہے، قابل قبول ہے اور اگراس کے خلاف ہو تو وہ قابل رد ہے، وہ غلط ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی ہدایت ہمیں اس کے مبعوث کردہ رسول کی طرف سے ملتی ہے اور اس کے بارے میں خود خداگواہی دیتا ہے کہ یہ پیغمبر جو کچھ کہتا ہے، ہماری طرف سے کہتاہے، اپنے پاس سے نہیں کہتا { FR 11839 }۔ اور خود اللہ نے اس پیغمبر کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ اس کی کتاب کی وضاحت اور تشریح کرے{ FR 11840 }۔لہٰذا آیئے دیکھیں کہ قلب اور اس کی نوعیت، حیثیت اور فنکشنز کے بارے میں قرآن وسنت ہماری کیارہنمائی فرماتے ہیں:
۱۔ قلب محل تفکروتدبر وتفہیم ہے
﴿لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ ﴾[الاعراف۷:۱۷۹]
’’ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارےمیں بتایا ہے کہ اللہ نے انہیں آنکھیں دی ہیں لیکن وہ ان سے حق کو نہیں دیکھتے، کان دیئے ہیں لیکن ان سے وہ حق بات سننے کا کام نہیں لیتے اور ہم نے انہیں قلوب یعنی دل دیئے ہیں لیکن وہ ان سے تفقہ وتدبر سے کام نہیں لیتے۔ گویا دل کا کام یہ ہے کہ آنکھ اورکان سے جو معلومات انسان کو ملتی ہیں ان کی صحیح تفہیم کرےاور ان سے صحیح نتیجہ نکالے۔
۲۔ ایمان کا انحصار قلب پر ہے
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’لایستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبہ‘۔{ FR 11841 }
’’یعنی بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح اور مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک اس کا قلب صحیح اور مستحکم نہ ہو۔‘‘
یعنی ایمان کی استقامت (سیدھی اور صحیح راہ پر ہونے)اوراس کے ثبات واستحکام کاانحصارقلب کی استقامت، ثبات اوراستحکام پر ہے۔مطلب یہ کہ انسان کے ا یمان لانے، اس پر یکسو ہونے،ایمان کے پختہ ہونے اور اس کے محرکِ اعمال ہونے کاانحصار قلب کی حالت پر ہے۔اگر قلب میں یکسوئی، پختگی ، صلابت ،سلامت روی ہوگی تو یہ صفات ایمان میں بھی ہوں گی۔سطور بالا میں گزر چکا کہ اعمال کا انحصارایمان واعتقاد پر ہوتاہے۔ نبی کریمﷺ کی اس حدیث سے پتا چلا کہ ایمان کے صحیح ہونے کا انحصار قلب کے صحیح ہونے پر ہے یعنی قلبی خیالات ومعتقدات صحیح ہوں، انسانی فطرت کے مطابق ہوںاور توحید پر مبنی ہوں۔یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید کا تصور انسان کی جبلت میں رکھا ہے۔فرمایا:
﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰي۝۰ۚۛ ﴾[الاعراف۷: ۱۷۲]
’’(اور پوچھا تھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا تھا کہ : کیوں نہیں ؟ ‘‘
یعنی توحید کاتصور اللہ نے اس کی فطرت میں رکھ دیا ہےآج کل کی زبان میں کہیں گے کہ توحید کا تصور انسان کی جینز(Genes)میں موجود ہے۔ یہ اس کے داخل میں موجود ہوتا ہے۔ یعنی اگر انسانی خیالات ومعتقدات صحیح ہوں گے اور قلب کا ان پرپختہ ایمان ہوگا تو اس کے نتیجے میں لازماً اعمال صالحہ وجود میں آئیں گے۔ خلاصہ یہ کہ ایمان کا انحصار قلب پر ہے اور اعمال صالحہ کا انحصارایمان پر ۔
۴۔آخرت میں کامیابی کا انحصار قلبِ سلیم پر ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۝۸۸ۙ اِلَّا مَنْ اَتَى اللہَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ۝۸۹ۭ ﴾ [الشعراء۲۶: ۸۸،۸۹]
’’ جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد ، ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اس کو نجات ملے گی) ۔‘‘
یعنی آخرت میں مال واولاد انسان کے کام نہیں آئیں گے بلکہ قلب سلیم کام آئے گا۔ اور جیسا کہ پہلے گزر چکا کہ اگر قلب سلیم ہوگا(یعنی توحید پر ایمان لانے والا ہوگا اور شرک ونفاق اورمعصیت سے بچنے والا ہوگا) تو وہ اعمال صالحہ کامحرک بنے گا۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آخرت میں کامیابی کا انحصار قلب سلیم یعنی صحیح وپختہ ایمان اور صالح اعمال پر ہوگا۔ اور یہ وہ بات ہے جو قرآن حکیم میں سیکڑوں بار کہی گئی ہے۔اور اسی لیے نبی کریم ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے کہ
’’ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَی دِيْنِكَ۔‘‘{ FR 11842 }
’’یعنی اے دلوں کو بدلنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔‘‘
یہ اس لیے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں نیکی اوربدی دونوں طرح کے رجحانات رکھے ہیںاور یہ اس لیے رکھے ہیں کہ اسی میں انسان کاامتحان ہے کہ وہ اپنے اختیار سے نیکی کی راہ اپنائے یا اسے رد کرے۔ورنہ اللہ کے لیے کیا مشکل تھا کہ سب کو موحد اورنیک پیدا کردیتا۔ اس لیے نیکی کی راہ پر چلنے کی اللہ سے توفیق مانگنا ضروری ہے تا کہ انسانی قلب خیر کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کرسکے اور خیر کی راہ وہی ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور جو اس کا بتایا ہوا دین ہے یعنی توحید وآخرت۔
۳۔ اعمال صالحہ کا مدار قلب پر ہے
’’ عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَيَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ، أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ .‘‘{ FR 11843 }
’’حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، چنانچہ جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو شاہی چراگاہ کے آس پاس (اپنے جانوروں کو) چرائے، قریب ہے کہ چراگاہ کے اندر اس کا جانور گھس جائے۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! بدن میں ایک ٹکڑا (گوشت کا) ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو! وہ ٹکڑاقلب ہے۔‘‘یعنی قلب کے خیالات ومعتقدات توحید پرمبنی ہوں گے اور پختہ ومستحکم ہوں گے تو اس کے نتیجے میں وہ حواس سے ملنے والی اطلاعات کا صحیح تجزیہ کریں گے۔قرآن جب باربار انسان کو انفس وآفاق کے شواہد کی طرف متوجہ کرتاہے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ شواہد کا مواد (Content)انفس وآفاق میں تو موجود ہے ،ضرورت اس چیز کی ہوتی ہے کہ ان سے قلب صحیح نتائج اخذ کرے ۔قرآن حکیم یہاں یہ بتا رہا ہے کہ انفس وآفاق کے شواہد سے کان اور آنکھ جو معلومات مہیا کرتے ہیں ،ان سے صحیح نتیجہ اخذ کرناقلب کا کام ہے(اورآج کل جو سمجھا جاتا ہے کہ یہ کام دماغ کرتاہے، صحیح نہیں ہے بلکہ غلط العام ہے۔ اس کے سائنسی دلائل آگے آرہےہیں)۔
یہاں نبی کریم ﷺ فرمارہے ہیں کہ انسانی جسم کی صحت کامدار قلب کی صحت پر ہے۔ اگر قلب تندرست اور صحت مند ہوگا تو سارا جسم صحت مند ہوگا اور اگر دل بیمار ہوگا تو سارا جسم بیمار ہو جائے گا۔ یہ بات طبی طور پر بھی صحیح ہے کہ انسان کی جسمانی صحت کا مدار دل کے صحیح کام کرنے پرہے لیکن سیاق وسباق سے پتا چلتا ہے کہ یہاں آنحضرت ﷺ کوئی طبی نسخہ نہیں بیان فرما رہے بلکہ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کا دل تندرست اور صحت مند ہوگا اس کے قوائے جسمانی سے جن افعال واعمال کا صدور ہوگا وہ بھی صحیح ہوں گے، وہ بھی درست سمت میں ہوں گے۔ اور اگر کسی شخص کاقلب تندرست نہ ہوگا، صحیح کام نہیں کرے گا تو اس کے اعمال بھی درست نہ ہوں گے۔
اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ ﷺنے ایک آدمی کو نماز میں داڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا’’ لَوْ خَشَعَ قَلْبُ خَشَعَتْ جَوَارِحُہُ‘‘{ FR 11844 }یعنی اگر اس کے دل میں خشوع ہوتاتو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ جوارح سے سرزد ہونے والے اعمال کا انحصار قلب پر ہے۔اگر قلب صحیح رخ میں محرک عمل ہوگا تو اعمال صحیح ہوں گے، ورنہ نہیں ہوں گے۔
اعمال کے درست یا غلط ہونے کامعیار ہمارے پاس دین اسلام یا شریعت اسلامیہ کی صورت میں موجود ہے یعنی اگر قلب میں توحید رسالت، آخرت کے صحیح عقائد پختہ ہوں گے تو جوارح سے جو اعمال سرزد ہوں گے وہ مطابق شریعت ہوں گے اور اگر کوئی شخص صحیح عقائد سے ہی سے محروم ہو تو اس کے اعمال بھی خلافِ شریعت ہوں گے اور وہ اس کے لیے اور دوسرے مسلمانوں کے لیے(مسلم معاشرے اور ریاست کے لیے ) فساد کا موجب ہوں گے۔گویا نبی کریمﷺ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اعمال صالحہ کا انحصار قلب کے صحت مند اور درست ہونے پرہے۔ اور قلب کے درست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے صحیح خیالات واعتقادات میسر ہوں تا کہ جوارح سے صحیح ا عمال کا صدور ہو سکے۔
خلاصہ یہ کہ اعمال صالحہ کے صدور کا انحصار قلب کے صحت مند ہونے پرہے۔ اگرقلب صحت مند ہوگا یعنی اسے صحیح نظریات فیڈ(Feed)ہوں گے (یعنی توحید ورسالت وآخرت پرمبنی) تو اس سے صحیح اعمال یعنی شریعت کے مطابق اعمال صالحہ کا صدور ہوگا۔ اوراگر قلب کو غلط نظریات وعقائد فیڈ ہوں گے تو اس سے خلاف شریعت اعمال کاصدور ہوگا جو زمین میں فتنہ وفساد کا سبب بنیں گے۔
۵۔ قلب مہبطِ وحی ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کے بارے میں فرمایا:
﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ ﴾ [الشعراء۲۶: ۱۹۳،۱۹۴]
یعنی ’’ امانت دار فرشتہ اسے لے کر اترا ہے۔ (اے پیغمبر) تمہارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم ان (پیغمبروں) میں شامل ہوجاؤ جو لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت وصول کرنے والا آلہ’قلب‘ہے۔ اس آیت سے اس حدیث کی تائید ہوتی ہے جو اوپر گزری کہ انسان کے ایمان لانے کا آلہ قلب ہے یعنی ایمان لانے یا ایمان قبول کرنے کا انحصار قلب پر ہے۔ قلب ہی احساسات وجذبات کی آماجگاہ ہے۔ محبت وخشیت، غصہ،ندامت ،نفرت ،حسد،کینہ کا منبع قلب ہے۔ قلب نہ صرف سمع وبصریعنی خارج سے آنے والی حسی معلومات، محرکات، مہیّجات کو وصول کرکے Processکرتا ہے بلکہ داخلی احساسات ومہیّجات بھی قلب ہی میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اللہ کا تصوراور خیر وشر کا تصور الہامی اور باطنی طور پرانسان کے داخل اور باطن میں موجود ہوتا ہے:- ﴿وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّيَّــتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰي۝۰ۚۛ شَہِدْنَا۝۰ۚۛ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اِنَّا كُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِيْنَ۝۱۷۲ۙ ﴾[الاعراف۷:۱۷۲]
’’اور (اے رسول ! لوگوں کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے آدم کے بیٹوں کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا تھا، اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا تھا، (اور پوچھا تھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا تھا کہ : کیوں نہیں ؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ (اور یہ اقرار ہم نے اس لیے لیا تھا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ : ہم تو اس بات سے بےخبر تھے۔ ‘‘
– ﴿فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ ﴾[الشمس ۹۱: ۸]
’’ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔ ‘‘
مطلب یہ کہ قبول اسلام کا تعلق قلب سے ہے ۔اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں دوسری جگہ یوں فرمایا:
– ﴿اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَہٗ قَلْبٌ ﴾[ق۵۰: ۳۷]
’’ یقینا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو۔‘‘
یعنی اللہ کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت وہدایت کو وہی تسلیم کرے گا جو قلب (سلیم )رکھتا ہو۔اور یہ ایمان بالغیب ہوتا ہے یعنی ایمان کی کونپل قلب کے داخل سے پھوٹتی ہےبغیر کسی خارجی وحِسّی محرک کے۔ الہا م اور وجدان اسی کو کہتے ہیں جیسا کہ شاعر کہتاہے کہ ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غیب سے آنے والے مضامین کا منبع دل ہی ہوتاہے۔
۶۔ قلبِ سلیم رہنمائی کرتاہے
اگر قلب سلیم ہو تو وہ انسان کی رہنمائی کرتاہے کہ کیا چیز خیر ہے اسے قبول کرنا ہے اور کیا چیز شر ہے اسے چھوڑنا ہے۔ ایک صحابی (وابصہ بن معبدؓ) آپ سے خیر اور شر کے بارے میں پوچھنے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا’’اِسْتَفْتَ قَلْبُکَ ‘‘یعنی اپنے قلب سے پوچھو۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس چیز کے صحیح ہونے کے بارے میں تمہارا دل واضح گواہی دے اس پر عمل کرو، وہ صحیح ہے اورجس چیز کے بارے میں تمہارا دل کھٹکے اور متذبذب ہو اسے چھوڑ دو۔{ FR 11845 }
۷۔ قلبی تائید (یعنی اخلاص اور صحیح نیت )کے بغیر ظاہری اعمال کافی نہیں
اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی قربانی کے بارے میں فرمایا:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۝۰ۭ ﴾ [الحج۲۲: ۳۷]
’’ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔‘‘
اوراسی مفہوم میں میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’عَنْ ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ اِنَّ اللہ لا ینظر اِلی صورکم واموالکم ولٰکن ینظر الٰی قلوبکم واعمالکم ‘‘{ FR 11846 }
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھے گا۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ آدمی بظاہر نیک اعمال کرے لیکن اس کے محرکات صحیح نہ ہوں ان میں اللہ کے لیے اخلاص نہ ہو اور نیت صحیح نہ ہو تو ایسے اعمال ان کے بجا لانے والے کے لیے آخرت میں ہرگز مفید نہ ہوں گے۔
اسی لیے نبی کریم ﷺ نے جب ایمان کی شہادت پرجنت کی خوش خبری دی تو وہاں بھی قلبی تصدیق کی شرط لگائی۔حدیث کے الفاظ ہیں:
’’مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ الله عَلَى النَّارِ ۔‘‘{ FR 11847 }
’’آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچّے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سواے الله تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں اور محمد الله کے رسول ہیں، الله اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘
اسی وجہ سے علماء اسلام نے ’ایمان ‘کی جورسمی تعریف کی ہے اس میں ’’اقرار باللسان‘‘ کے ساتھ ’’تصدیق بالقلب‘‘بھی لکھا ہےجیسا کہ عقیدہ طحاویہ میں ہے:  ’’والایمان : ھو الاقرار باللسان، والتصدیق بالجنان‘‘{ FR 11848 }مطلب یہ کہ صرف وہ ایمان معتبر ہے جس میں زبان سے اقرارکے ساتھ قلبی تصدیق بھی شامل ہو۔ مطلب یہ کہ اگرکوئی شخص کسی دنیوی فائدے کے لیے یا کسی دبائو کے تحت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائے اورنماز بھی پڑھنے لگے تو اسے ان کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اس کا دل اس میں شامل نہیں ،یہ تو محض منافقت ہے۔
۸۔ قلبِ سلیم سے محروم انسان جانوروں سے بدتر ہیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ ﴾[الاعراف۷: ۱۷۹]
’’ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ ‘‘
مطلب یہ کہ انسان اشرف ا لمخلوق اسی وقت ہے جب وہ ایمان لائے اور عمل صالح کرے لیکن اگر وہ اپنی سماعت وبصارت سے صحیح کام نہ لے اور اس کا دل ان سمعی وبصری پیغامات کا صحیح تجزیہ وتنقیح نہ کرے اور ایمان نہ لائے تو وہ گویا انسان نہیں حیوان ہے جو شعور نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے کیونکہ حیوانات بھی اپنی فطرت وجبلت کی خلاف ورزی نہیں کرتے لیکن انسان کی جبلت میں اللہ کاتصور رکھ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چاند ،سورج ،آگ وغیرہ کو پوجنے لگتا ہے یا دیوی، دیوتاؤں، نیک بندوں یا بادشاہوں کو خدا کا شریک ٹھہراتا ہے اور ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے۔قلب کی بیماریاں
صحت مند قلب کاذکر اوپر گزرچکا کہ قرآن اسے ’قلبِ سلیم ‘کہتا ہے ۔یہ وہ قلب ہے جو اللہ کے اس تصور کو قبول کرتا ہے جو اس کے داخل میں موجود ہوتاہے اور خیروشر کے رجحانات میں سے خیر کو قبول کرتاہے۔ قلب سلیم کا نتیجہ ہوتے ہیں دنیا میں اعمال صالحہ اورآخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی اور اس کی نعمتیں ۔
قرآن وسنت سے غیر صحت مند قلب کے کئی درجوں کا پتہ چلتا ہے جیسے :۱۔ قلب پر غبار آجانا ۲۔ قلب کو زنگ لگ جانا ۳ ۔ قلب کا سخت ہو جانا ۴۔ قلب کا سیاہ ہو جانا ۵۔قلب کا اندھا ہوجانا ۶۔ قلب کا مرجانا ۔ اب ہم ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔
۱۔ قلب پر غبارآجانا
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’إنہ لیغان علی قلبی وإنی لأستغفر اللہ و أتوب إلیہ فی الیوم مأئۃ مرۃ۔‘‘{ FR 11849 }
ترجمہ: میرے قلب پر بھی غبار سا چھا جاتا ہے لہٰذا میں دن رات میں سو (۱۰۰)دفعہ استغفار کرتا ہوں۔ یاد رہے یہ غبار مانعِ درجاتِ عالیہ ہے،سببِ معصیت نہیں اورمقصود اس سے ترغیب ہوتی ہے کثرت ذکروتلاوت ونوافل کی۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ مَیں دن میں سوبار (اور دوسری حدیث میں ہے کہ دن میں ستر (۷۰)بار{ FR 11850 } استغفار کرتا ہوں یعنی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔ حالانکہ آپ سے معصیت کا اظہار محال تھا(کہ وحی کی صیانت آپ کو میسر تھی اوراسی معنی میں نبی کو معصوم عن الخطا کہا جاتاہے)۔اس میں سبق ہے ہم جیسے نالائقوں اور گناہگاروں کے لیے کہ اگر نبی ﷺ کو دن رات میں سوبار استغفار کی حاجت تھی تو تصورکیجیے کہ ہمیں دن رات میں کتنے استغفار کی ضرورت ہے؟ ہم تو دن رات مسلسل استغفار کرتے رہیں تو شاید وہ بھی کفایت نہ کرے۔
۲۔ قلب پر زنگ لگ جانا
قرآن مجید میں فرمایا:
﴿كَلَّا بَلْ۝۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۱۴ ﴾[المطففین۸۳: ۱۴]
’’ ہرگز نہیں ! بلکہ جو عمل یہ کرتے رہے ہیں اس نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ کفار کے انکار حق کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کرتوتوں کے سبب ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے اور ان کے دل حق قبول کرنے کے ا ہل نہیں رہے اور اس کانتیجہ اللہ کی ناراضی اور جہنم ہوگا۔
اسی مفہو م میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’اِنَّ ھٰذِ ہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ قَالُوْا فَمَا جَلَاءُ ھَا یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتَلَاوَۃُ الْقُرْاٰنِ۔‘‘{ FR 11851 }
’’کہ یہ دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے پانی پڑنے پر لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ اس زنگ کو کیسے چھڑایا جائے تو آپﷺ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرو اور قرآن کی تلاوت کرو۔‘‘
۳۔ قلب کا سیاہ ہوجانا
نبی ﷺ نے فرمایا:
’’إنَّ الْعَبْدَ إذَا أذْنَبَ ذَنْبًا كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ، فإنْ تابَ مِنْهَا صُقِلَ قَلْبُهُ۔‘‘{ FR 11852 }
’’جب آدمی گناہ کرتا ہے تواس کے دل پرایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اگر آدمی گناہ کرتا رہے اور استغفار نہ کرے تو مزید نکتے پیدا ہوتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ دل بالکل سیاہ ہو جاتاہے۔‘‘
دل کے سیاہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نورہدایت قبول کرنے کاا ہل نہیں رہتا۔ وہ حق وباطل اور خیروشر میں فرق کرنے کی اہلیت کھو بیٹھتا ہے۔
۴۔ دل کا اندھا ہو جانا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۝۴۶ ﴾ [الحج۲۲: ۴۶]
’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ ‘‘
مطلب یہ کہ کفاراگرحق کو تسلیم نہیں کررہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہیں انفس وآفاق میں بکھرے دلائلِ توحید وآخرت نظر نہیں آتے۔ نہیں، انہیں سب کچھ نظر آرہا ہے۔وہ آنکھوں کے اندھے نہیں دل کے اندھے ہیں۔دل کے اندھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بصارت جو احساسات ومہیجات دل کو بھجواتی ہے وہ تزکیہ نہ ہونے اور بصیرت کے فقدان کی وجہ سے اس کا صحیح رخ میں تجزیہ وتنقیح نہیں کر پاتا اور صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا اس لیے وہ حقائق کا ،جیسا کہ وہ ہیں،ادراک نہیں کر پاتا اور حق کو سمجھ نہیں سکتا اور اسے قبول نہیں کرسکتا۔
۵۔ قلب کا مرجانا
﴿اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ ﴾[النحل۱۶:۱۰۸]
’’یہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘
دوسری جگہ ’’ختم اللہ‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں{ FR 11853 } ۔مطلب یہ کہ ا ن لوگوں نے اپنے دل کی حالت ایسی بنالی ہے کہ اب اس میں حق کو قبول کرنے کی اہلیت ہی باقی نہیں رہی۔ اس پر مہر لگ چکی، اس میںایمان داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ اسے قلب کا عدم موجود ہونا بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کا مرجانا بھی۔
قلب موجود نہ ہونے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ قول ہے:
’’اطلب قلبك في ثلاثة مواضع: عند سماع القرآن، وفي مجالس الذِّكر، وفي أوقات الخَلوة، فإن لم تجده في هذه المواطن، فاسأل الله أن يعطيك قلبًا؛ فإنه لا قلب لك‘‘۔{ FR 11854 }
’’کہ ا پنے قلب کو تین جگہوں میں ڈھونڈو، قرآن سننے کے وقت، ذکر کی محفلوں میں اور تنہائی کے اوقات میں۔ اگر ان تین جگہوں میںقلب نہ پائو تو اللہ سے سوال کرو کہ وہ تمہیں ایک بیدارقلب عطا فرمائے کیونکہ تم قلب سے محروم ہو۔ ‘‘
مطلب یہ کہ جس آدمی کا قلب تلاوت سے ،اللہ کے ذکر سے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرنے سے بھی متاثر نہیں ہوتا، وہ قلب گویامردہ ہے، وجود ہی نہیں رکھتا۔ چنانچہ عبدالملک مروان نے جو مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبؒ کاشاگرد تھا، ان سے کہا کہ اب مجھے نیک کام کرکے خوشی نہیں ہوتی اور غلط کام کرکے رنج نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا اس لیے کہ تمہارا دل مردہ ہو چکا ہے۔
محقق صوفیاء اور قلب
سطور بالا میں ہم نے قلب کے بارے میں قرآن وسنت کی تعلیمات کا جائزہ لیا جس سے واضح ہوتاہے کہ انسانی اعمال میں قلب بنیادی کردارادا کرتاہے۔
محقق صوفیاء نے ان شرعی تعلیمات کی روشنی میں قلب، اس کے تصرفات، اس کی بیماریوں ،ان کی اصلا ح، سلوک (انسانی رویوں ،رجحانات اور طرز عمل ) وتعمیرسیرت پر اس کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔ان کا کا م اتنا وسیع، وقیع اور تفصیلی ہے کہ انہوں نے اسے پورا ڈسپلن اور سائنس بنا دیا ہے۔ اس پر ان کی سیکڑوں تصانیف موجود ہیں اور آج ان کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے بھی ایک مرکز تحقیق ،انسائیکلو پیڈیا یا کئی کتب کی ضرورت ہے اور اس کےمختلف پہلوئوں پر پی ایچ ڈی کے کئی مقالے لکھے جا سکتے ہیں اور لکھے جانے چاہئیں۔
ہمیں اس موضوع پر اس تفصیل سے کام نہیں کرنا لہٰذا ہم اس کی طرف محض اس اشارے پرقلب کی بیماریاں
صحت مند قلب کاذکر اوپر گزرچکا کہ قرآن اسے ’قلبِ سلیم ‘کہتا ہے ۔یہ وہ قلب ہے جو اللہ کے اس تصور کو قبول کرتا ہے جو اس کے داخل میں موجود ہوتاہے اور خیروشر کے رجحانات میں سے خیر کو قبول کرتاہے۔ قلب سلیم کا نتیجہ ہوتے ہیں دنیا میں اعمال صالحہ اورآخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی اور اس کی نعمتیں ۔
قرآن وسنت سے غیر صحت مند قلب کے کئی درجوں کا پتہ چلتا ہے جیسے :۱۔ قلب پر غبار آجانا ۲۔ قلب کو زنگ لگ جانا ۳ ۔ قلب کا سخت ہو جانا ۴۔ قلب کا سیاہ ہو جانا ۵۔قلب کا اندھا ہوجانا ۶۔ قلب کا مرجانا ۔ اب ہم ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔
۱۔ قلب پر غبارآجانا
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’إنہ لیغان علی قلبی وإنی لأستغفر اللہ و أتوب إلیہ فی الیوم مأئۃ مرۃ۔‘‘{ FR 11849 }
ترجمہ: میرے قلب پر بھی غبار سا چھا جاتا ہے لہٰذا میں دن رات میں سو (۱۰۰)دفعہ استغفار کرتا ہوں۔ یاد رہے یہ غبار مانعِ درجاتِ عالیہ ہے،سببِ معصیت نہیں اورمقصود اس سے ترغیب ہوتی ہے کثرت ذکروتلاوت ونوافل کی۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ مَیں دن میں سوبار (اور دوسری حدیث میں ہے کہ دن میں ستر (۷۰)بار{ FR 11850 } استغفار کرتا ہوں یعنی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔ حالانکہ آپ سے معصیت کا اظہار محال تھا(کہ وحی کی صیانت آپ کو میسر تھی اوراسی معنی میں نبی کو معصوم عن الخطا کہا جاتاہے)۔اس میں سبق ہے ہم جیسے نالائقوں اور گناہگاروں کے لیے کہ اگر نبی ﷺ کو دن رات میں سوبار استغفار کی حاجت تھی تو تصورکیجیے کہ ہمیں دن رات میں کتنے استغفار کی ضرورت ہے؟ ہم تو دن رات مسلسل استغفار کرتے رہیں تو شاید وہ بھی کفایت نہ کرے۔
۲۔ قلب پر زنگ لگ جانا
قرآن مجید میں فرمایا:
﴿كَلَّا بَلْ۝۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۱۴ ﴾[المطففین۸۳: ۱۴]
’’ ہرگز نہیں ! بلکہ جو عمل یہ کرتے رہے ہیں اس نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ کفار کے انکار حق کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کرتوتوں کے سبب ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے اور ان کے دل حق قبول کرنے کے ا ہل نہیں رہے اور اس کانتیجہ اللہ کی ناراضی اور جہنم ہوگا۔
اسی مفہو م میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’اِنَّ ھٰذِ ہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ قَالُوْا فَمَا جَلَاءُ ھَا یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتَلَاوَۃُ الْقُرْاٰنِ۔‘‘{ FR 11851 }
’’کہ یہ دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے پانی پڑنے پر لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ اس زنگ کو کیسے چھڑایا جائے تو آپﷺ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرو اور قرآن کی تلاوت کرو۔‘‘
۳۔ قلب کا سیاہ ہوجانا
نبی ﷺ نے فرمایا:
’’إنَّ الْعَبْدَ إذَا أذْنَبَ ذَنْبًا كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ، فإنْ تابَ مِنْهَا صُقِلَ قَلْبُهُ۔‘‘{ FR 11852 }
’’جب آدمی گناہ کرتا ہے تواس کے دل پرایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اگر آدمی گناہ کرتا رہے اور استغفار نہ کرے تو مزید نکتے پیدا ہوتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ دل بالکل سیاہ ہو جاتاہے۔‘‘دل کے سیاہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نورہدایت قبول کرنے کاا ہل نہیں رہتا۔ وہ حق وباطل اور خیروشر میں فرق کرنے کی اہلیت کھو بیٹھتا ہے۔
۴۔ دل کا اندھا ہو جانا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۝۴۶ ﴾ [الحج۲۲: ۴۶]
’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ ‘‘
مطلب یہ کہ کفاراگرحق کو تسلیم نہیں کررہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہیں انفس وآفاق میں بکھرے دلائلِ توحید وآخرت نظر نہیں آتے۔ نہیں، انہیں سب کچھ نظر آرہا ہے۔وہ آنکھوں کے اندھے نہیں دل کے اندھے ہیں۔دل کے اندھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بصارت جو احساسات ومہیجات دل کو بھجواتی ہے وہ تزکیہ نہ ہونے اور بصیرت کے فقدان کی وجہ سے اس کا صحیح رخ میں تجزیہ وتنقیح نہیں کر پاتا اور صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا اس لیے وہ حقائق کا ،جیسا کہ وہ ہیں،ادراک نہیں کر پاتا اور حق کو سمجھ نہیں سکتا اور اسے قبول نہیں کرسکتا۔
۵۔ قلب کا مرجانا
﴿اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ ﴾[النحل۱۶:۱۰۸]
’’یہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘
دوسری جگہ ’’ختم اللہ‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں{ FR 11853 } ۔مطلب یہ کہ ا ن لوگوں نے اپنے دل کی حالت ایسی بنالی ہے کہ اب اس میں حق کو قبول کرنے کی اہلیت ہی باقی نہیں رہی۔ اس پر مہر لگ چکی، اس میںایمان داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ اسے قلب کا عدم موجود ہونا بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کا مرجانا بھی۔
قلب موجود نہ ہونے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ قول ہے:
’’اطلب قلبك في ثلاثة مواضع: عند سماع القرآن، وفي مجالس الذِّكر، وفي أوقات الخَلوة، فإن لم تجده في هذه المواطن، فاسأل الله أن يعطيك قلبًا؛ فإنه لا قلب لك‘‘۔{ FR 11854 }
’’کہ ا پنے قلب کو تین جگہوں میں ڈھونڈو، قرآن سننے کے وقت، ذکر کی محفلوں میں اور تنہائی کے اوقات میں۔ اگر ان تین جگہوں میںقلب نہ پائو تو اللہ سے سوال کرو کہ وہ تمہیں ایک بیدارقلب عطا فرمائے کیونکہ تم قلب سے محروم ہو۔ ‘‘
مطلب یہ کہ جس آدمی کا قلب تلاوت سے ،اللہ کے ذکر سے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرنے سے بھی متاثر نہیں ہوتا، وہ قلب گویامردہ ہے، وجود ہی نہیں رکھتا۔ چنانچہ عبدالملک مروان نے جو مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبؒ کاشاگرد تھا، ان سے کہا کہ اب مجھے نیک کام کرکے خوشی نہیں ہوتی اور غلط کام کرکے رنج نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا اس لیے کہ تمہارا دل مردہ ہو چکا ہے۔
محقق صوفیاء اور قلب
سطور بالا میں ہم نے قلب کے بارے میں قرآن وسنت کی تعلیمات کا جائزہ لیا جس سے واضح ہوتاہے کہ انسانی اعمال میں قلب بنیادی کردارادا کرتاہے۔
محقق صوفیاء نے ان شرعی تعلیمات کی روشنی میں قلب، اس کے تصرفات، اس کی بیماریوں ،ان کی اصلا ح، سلوک (انسانی رویوں ،رجحانات اور طرز عمل ) وتعمیرسیرت پر اس کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔ان کا کا م اتنا وسیع، وقیع اور تفصیلی ہے کہ انہوں نے اسے پورا ڈسپلن اور سائنس بنا دیا ہے۔ اس پر ان کی سیکڑوں تصانیف موجود ہیں اور آج ان کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے بھی ایک مرکز تحقیق ،انسائیکلو پیڈیا یا کئی کتب کی ضرورت ہے اور اس کےمختلف پہلوئوں پر پی ایچ ڈی کے کئی مقالے لکھے جا سکتے ہیں اور لکھے جانے چاہئیں۔
ہمیں اس موضوع پر اس تفصیل سے کام نہیں کرنا لہٰذا ہم اس کی طرف محض اس اشارے پرقناعت کرتے ہیں۔ البتہ اس طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ قرآن وسنت نے قلب کی جو اہمیت بیان کی ہے اور محقق صوفیاء نے اس پر جو اضافے کیے ہیں،وہ ان مسلمانوں کے لیے قابل اعتناء تھے جو قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کرتے تھے اور جو محقق صوفیاء کے قلب سے متعلق نظریات کو وقعت اوراہمیت دیتے تھے اور انہیں سچ گردانتے تھے لیکن جدید تعلیم یافتہ لوگ جو مغربی سائنس کی محیرالعقول ترقی اور غلبے سے مرعوب ہیں، وہ کنفیوز ہوتے ہیں کہ قرآن وسنت جن امور کی قلب سے متعلق نسبت کرتے ہیں،جدید سائنس انہیں دماغ سے منسوب کرتی ہے۔