کچھ دوسروں کی زبانی
مولانا صوفی عائش محمدؒ ڈاکٹرزاہد اشرف (فیصل آباد)
بڑی شخصیات کی صحبت میسر آنا سعادت وخوش بختی سے کم نہیں۔اللہ تعالیٰ کا بے پایاں شکر کہ ہمیں ایسی سعادتیں بارہامیسر آئیں۔ابا جان مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف علیہ الرحمہ اپنی قد آور شخصیت کی بدولت زندگی کے مختلف طبقات کی نمایاں ترین شخصیات سے انتہائی قریبی اور گہرے روابط رکھتے تھے۔ ان میں دینی طبقے سے جلیل القدر علمائے کرام بھی تھے اور دینی راہنما بھی ، ان میں طبی شعبے سے وابستہ شہرہ آفاق اطباء بھی تھے اور طبی قیادت کے لعل وجواہر بھی ،ان میں چوٹی کے سیاسی قائدین بھی تھے اور نظام سے وابستہ نامی گرامی حضرات بھی۔ ان میں شعبہ تجارت کی جانی پہچانی شخصیات کے علاوہ شعبہ ہائے تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ ،معیشت ومعاشرت اور فلاح ورفاہ سے متعلقہ گرامی قدر ہستیاں بھی۔ یہ شخصیات مقامی بھی تھیں اور قومی بھی،ملی بھی تھیں اور بین الاقوامی بھی۔ ان کا ہمارے گھر تانتا بندھا رہتا تھا اور ہمیں ان کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کی مہمان نوازی کا شرف حاصل رہتا تھا۔
کئی ایک روحانی شخصیات بھی ہمارے گھر میں قدم رنجہ فرماتیں۔ یہ اپنے اپنے دور کی نامور ہستیاں ہوتی تھیں اور ایک دنیا ان کے فیض سے مستفید ہوتی تھی ۔صوفی محمد عبداللہ اوڈانوالہ والے رحمتہ اللہ تعالیٰ ان میں سرفہرست تھے۔وہ جب بھی تشریف لاتے ، گھرمیں آنے والوں کا تانتا بندھ جاتا،ان سے شرف ملاقات حاصل کرنے اور ان کے روحانی فیض سے مستفید ہونے اور ان کی دعائوں سے اپنا دامن مراد بھرنے والوں کی بڑی تعداد ہمار ے گھر کا رخ کرتی۔ خود حضرت صوفی صاحب ؒ کے ہمراہ کئی ایک شخصیات بھی ہمارے گھر قدم رنجہ فرماتیں، انہی میں سے ایک نمایاں ہستی مولانا صوفی عائش محمد کی تھی۔ہم نے صوفی صاحب کی معیت میں بھی اوران کے بغیر بھی انہیں اپنے گھر میں فروکش دیکھا۔ ان کی خدمت کی سعادت حاصل کی اور یوں ان کی شخصیت کو بڑے قریب سے دیکھنے کاموقعہ ملا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفی عائش محمد ؒ بہت سے انفرادی خصائل کے حامل تھے۔ کالج کاطالب ہونے کے باوجود دین اور تصوف سے ان کا تعلق مثالی تھا۔ اورتعلق بھی کیسا؟ جو ان کے انگ انگ سے جھلکتا تھا ،ان کے قول وفعل سے مترشح ہوتا تھا، ان کے اٹھنے بیٹھنے میں دکھائی دیتا تھا، ان کی وضع قطع اور چال ڈھال میں نظرآتا تھا ،ان کے سونے جاگنے کے انداز سے ہویدا تھا۔ وہ سادہ منش ہی نہیں سادہ طبیعت کے بھی مالک تھے۔ لباس سادگی کا مظہر تھا اور یہی وصف ان کے پورے مزاج کا جزولاینفک تھا۔ عاجزی وانکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
اپنے مرشد حضرت صوفی عبداللہ ؒ کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کر رکھی تھی اورسچ بات یہ ہے کہ ان کی رحلت کے بعد مولانا صوفی عائش محمد انہی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ وہ انہی کے رنگ میں ر نگے ہوئے تھے،وہ رنگ جسے صبغتہ اللہ (اللہ کارنگ)کہا جاتا ہے اوراس سے زیادہ خوب صورت رنگ اورکیا ہوگا؟ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً۔دونوں شخصیات اسی رنگ کا چلتا پھرتا پیکرتھیں۔دونوں ولی اللہ تھے اور دونوں ہی مستجاب الدعوات تھے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست دعا بلندکرنے کے انداز میں بھی کسی حد تک یکسانیت تھی۔یہ الگ بات کہ حضرت صوفی عائش محمد ؒ کے ہاں عجزو انکساری کا غلبہ تھا۔ صوفی محمد عبداللہ مرحوم دعاکرتے ہوئے بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے یوں مخاطب ہوتے تھے جیسے ایک بے تکلف دوست اپنے بے تکلف دوست سے ہوتا ہے ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب صوفی صاحب ہمارے ہاں تشریف لاتے تو ابا جان علیہ الرحمہ جہاں اپنی شان دار روایات کے مطابق ان کی بہت زیادہ تواضع تو کرتے ہی تھے وہیں وہ ان کی خدمت کے حوالے سے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔وہ ان کی ٹانگیں اور پائوں دباتے اور ان کے چھوٹے چھوٹے کام بجا لانے کو اپنی سعادت سمجھتے۔ ابا جانؒ ان سے دعا کی درخواست کرتے تو صوفی صاحبؒ کی زبان سے نکلنے والے دعائیہ کلمات قبولیت کی ضمانت بنجاتے۔وہ التجا بھی کرتے،پیارومحبت سے درخواست بھی کرتے اور اللہ کا ولی ہونے کے ناطے اس طرح کے الفاظ نوکِ زباں پر لے آتے:’’اے اللہ ! عبدالرحیم نوں تیرے دین دے کماں لئی پیسے دی لوڑ اے۔ تو اینہوں دے اور چھپر پھاڑ کے دے ،بوہت سارے دے۔تو اینہاںپیسیاں دا کی کرنااے۔عبدالرحیم نوں بوہت سارے پیسے دے دے‘‘۔{ FR 11777 }یہ دعائیہ انداز اس اعتبار سے نادرالوقوع انفرادیت کا آئینہ تھا کہ اس سے للہیت بھی چھلکتی تھی اوراپنے خالق و مالک سے دوستانہ بے تکلفی بھی۔ صوفی عائش محمدؒ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں غرق ان کے سامنے دست ِدعا بلند کرتے،عاجزی وانکساری کا پیکر بنے ہوئے ان کے سامنے دست سوال دراز کرتے۔ انداز میں بے شک کسی حد تک فرق ضرور ہوگا اور وہ شخصیات کی انفرادیت کے باعث بھی ہوتا ہے لیکن ایک منفرد خصوصیت دونوں میں مشترک تھی اور و ہ تھی ان دونوں کا مستجاب الدعوات ہونے کی۔ حضرت صوفی محمد عبداللہ علیہ الرحمہ کے ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں، جہاں ا دھر دعا ختم ہوئی اورادھر شرف قبولیت کا در وا ہوا اور لمحوں میں مانگی گئی مراد پوری ہوگئی۔ ایسا کچھ ہی مولانا صوفی عائش محمد ؒ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے۔ان کی اپنی زندگی بھی اس حقیقت کی شاہد ہے۔ خود ان کے اپنے لیے صوفی محمد عبداللہؒ کی دعا کی قبولیت ان کے مرشد کے مستجاب الدعوات ہونے کی دلیل ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ صوفی عائش محمدؒ کالج کی تعلیم ترک کرکے دینی تعلیم کو اپنا اوڑھنابچھونا بناچکے تھے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش آئی۔ان کی صحت متاثر ہوئی۔ ڈاکٹرحضرات نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ تعلیم ترک کردیں۔وہ اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اپنی کیفیت اورڈاکٹروں کے مشورے کاذکر کیا۔حضرت صوفی محمد عبداللہؒ کی دعااللہ تعالیٰ کے اذن پر کچھ یوں شفا کا باعث بن گئی کہ انہیں کسی دوا کے استعمال کی ضرورت ہی نہ پڑی۔
۲۵۔اپریل ۲۰۱۹ء کو میں نے ان کی اپنی زبان سے متذکرہ بالا واقعہ اور اس کے علاوہ کئی ایک واقعا ت سنے۔میری ایک طویل عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ میں مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ : ’’حیات و خدمات ‘‘نامی کتاب کی زیر ترتیب جلد کے لیے ان کاانٹرویو کروں۔ محترم محمد سلیم جباری کے ذریعے ان سے رابطہ ہوا اور انہوں نے وعدہ فرمایا کہ وہ مذکورہ بالا تاریخ کو اشرف لیبارٹریزفیصل آباد میں تشریف لائیں گے۔ اس روز ایک لمبے عرصے کے بعد ان کی صحبت میسر آئی تھی۔ ہم نے طویل ساعتیں اکٹھے گزاریں۔ سوال نامہ میرے سامنے تھا اوروہ اپنے خاص انداز میں محوتکلم تھے۔ اس گفتگو میں جہاں انہوں نے اپنے مرشد حضرت صوفی محمد عبداللہؒ کاذکر خاص کیا، اپنے مرض اوراس سے شفایابی کا اوپر بیان کردہ واقعہ بیان کیا، وہیں اپنی زندگی کے ایسے واقعات بھی سنائے جو اپنے مرشد کی طرح خود ان کے ا پنے مستجاب الدعوات ہونے کے گواہ تھے ۔دوران تعلیم میٹرک کے امتحان میں اپنے دوست حسن سے آٹھ نمبرزیادہ ہونے کی دعاہو یا پھر کسی قسم کے مالی وسائل سے یکسر محرومی کے باوجود حج بیت اللہ کی سعادت اور پھرمکہ مکرمہ میں ۸۰/۱۹۷۹ء میں ۵لاکھ ریال سے ایک ہوٹل کا ٹھیکہ لینا، ان کے مستجاب الدعوات ہونے کے ناقابل تردید شواہد تھے۔ ان واقعات کی تفصیلات ایک طرف اللہ تعالیٰ پر ان کے غیر متزلزل ایمان، ایقان اورتوکل کی نشان دہی کرتی ہیں تو دوسری جانب یہ واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعائوں اور تمنائوں کو بھی پورا فرما دیاکرتے تھے۔ وہ تو حدیث مبارک ’’لو اقسم علی اللہ لا برہُ ۔( اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو وہ ان کی قسم کو پورا فرمادیں )کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔
اسی طر ح وہ اللہ تعالی ٰ سے قربت جیتی نعمت سے بھی سرفراز تھے اور اس کے نتیجے میں ان پر رقت طاری رہتی تھی۔ اپنے آقا کی بارگاہ میں وہ مجسم عجزونیاز بنے ہوتے تھے، کلام اللہ سے انہیں بے پناہ شغف تھا اور اسی کی تلاوت ان کے یومیہ معمولات میں سرفہرست ہوا کرتی تھی ۔ ایک دن کے وقفے سے روزہ رکھنا ان کی زندگی کا معمول تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں ولی اللہ تھے۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے مَیں نے ان کے بارے میں کسی جگہ پڑھا کہ جب وہ کہیں گفتگو کر رہے ہوتے یا وعظ وتبلیغ میں مصروف ہوتے یا کسی محفل میں تقریر کررہے ہوتے اور انہیں کسی حدیث کا متن سنانے کی ضرورت محسوس ہوتی تو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بلند کرتے، اس کی طرف دیکھتے اور حدیث مبارک کے الفاظ بعینہٖ پڑھ دیتے۔یہ خوبی، صلاحیت یا استعداد ناقابل یقین معلوم ہوتی ہےلیکن جب مَیں نے پیغام ٹی وی کے لیے ان کا ایک انٹرویو دیکھا تو مجھے جا بجا اس صلاحیت کے مظاہر دیکھنے کو ملے۔ وہ نہ صرف احادیث مبارکہ بلکہ اقوال سلف، امہات الکتب کے متن اورعلامہ اقبال علیہ الرحمہ کے فارسی اور اردواشعاربھی اسی طرح بائیں ہتھیلی کی طرف دیکھ کر پڑھ دیتے، یہ ایک حیران کن صلاحیت تھی جسے یقینی طور پر ان کااعجاز کہا جا سکتاہے۔جناب مولانا صوفی عائش محمد ؒ،ابا جان مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ جیسا کہ مَیں نے ابتداء میں عرض کیا کہ وہ ہمارے ہاں حضرت صوفی محمد عبداللہ ؒ کے ہمراہ تشریف لاتے یا الگ سے بھی تو بس اوقات ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی مولانا عتیق اللہ (ستیانہ بنگلہ والے)بھی ہوتے تھے۔ہمارے ہاں قیام کے دوران ہمیں جہاں ان کی للہیت، تقویٰ ،سادگی اور عجزو انکساری جیسے عظیم اوصاف سے آگہی حاصل ہوئی، وہیں ان کی نفس کشی کی صلاحیت کاکبھی پتہ چلا۔ وہ شدید گرمی میں بھی لحاف اوڑھ کر سویاکرتے تھے اور ہمارے لیے ان کی یہ عادت اچنبھے کا باعث بھی تھی اورحیرانی کا سبب بھی۔ پتہ چلاکہ وہ ا پنے نفس کو مارنے کے لیے ایسا کرتے تھے،اور وہ یہ کیوں نہ کرتے؟ وہ تو حضرت صوفی محمد عبداللہؒ کے بعد شاہ اسماعیل شہید علیہ الرحمتہ کی تحریک مجاہدین کے امیر تھے۔۔۔اورمجاہد تو اپنے آپ کو ہر قسم کی سختیوں کے لیے ہمہ وقت تیار کھتا ہے۔
اپنے دفتر میں ۲۵؍اپریل ۲۰۱۹ء کو حضرت صونی عائش محمدؒ سے ملاقات اس حیات مستعار میں آخری ملاقات ثابت ہوئی۔اس روز مَیں ابا جان مرحوم کے حوالے سے ان سے بہت کچھ جاننا چاہتا تھا،اسے تاریخ کا حصہ بناناچاہتا تھا،لیکن تب ان کی شخصیات کے حوالے سے ہی ز یادہ تر باتیں ہوتی رہیں۔ابا جانؒ کے چند ایک واقعات انہوں نے ضرور بتائے۔طویل وقت اکٹھا گزارنے کے باوجود ہم ان کے باہمی تعلقات کا کما حقہ احاطہ نہ کرسکے۔مَیں نے ان سے ایسی ایک مزید نشست کی درخواست کی۔ انہوں نے اسے قبول کرلیا لیکن اس کی پھرنوبت ہی نہ آسکی۔ یہاں تک کہ وہ اس دیس جابسے جوہر ذی نفس کا آخری اورابدی مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو جنت کا ٹکڑا بنائیں اور ہمیں جنت الفردوس میں پھر سے یک جا کردیں۔ آمین، یارب العالمین۔