نفاذِ اسلام میںعلماءکا اتحاد ناگزیر ہے
کچھ عرصے قبل سب نے دیکھا کہ ختمِ نبوت کے موضوع پر علما کے ایک طبقے کے دھرنے نے حکومت ِوقت کے لادین عناصر کوان کے آگے جھکنے پر مجبور کردیا تھا ۔ موضوع تھا ہی ایسا کہ اس پر مصالحت نہیں ہوسکتی تھی ۔رسالت مآب کے پروانے جان دے دینے پر آمادہ تھے۔چنانچہ حکومت کو بدرجۂ مجبوری جھکنا پڑا اوراپنی دانستہ و نادانستہ غلطیوں کی اصلاح کرنی پڑی۔ ثابت ہو اکہ عشق نبی ﷺ ہی سب سے بالادست ہے اورباقی سب زیردست ہے۔
تاہم سازشوں کا سلسلہ اب بھی رکا نہیں ہے ۔مذہب میںدراڑیں ڈالنے کا سلسلہ حسبِ دستور جاری ہے۔ ایک دو بڑے خطرے سر پہ ہنوزمنڈلا رہے ہیں ۔ سعی کی جارہی ہے کہ توہینِ مذہب کی سزا موت سے ہٹا کر قیدِ محض کردی جائے جس کے بعد ملزم ضمانت پر رہا ہو اور مقدمہ غتربود ہو جائے۔ اصول یہ اپنایا جارہا ہے کہ بے شک سب ناراض ہوجائیں لیکن مغرب کا آقا کبھی ناراض نہ ہو۔توہینِ مذہب کی مرتکب آسیہ کو توپانچ چھ سالوںکے بعد بھی سزائے موت نہ دی جاسکی لیکن سپاہی ممتازقادری کو آنا فاناََ پھانسی پر چڑھا دیا گیا ۔اسی سے لادین عناصر کی بد نیتی کااندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
البتہ پاکستان کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ قومی دینی تنظیموں نے جب بھی کوئی مثبت دینی تحریک چلائی اور عوام میںجان وار دینے جیسی کیفیت پیداکی تو ظالم وفاسق حکومتوںکے لائو لشکر کے باوجود وہ تحریک کامیاب ہوکررہی ۔ کامیابی ان کے قدم چومتی چلی گئی اور ملک اسلامی انقلاب کی جانب ایک قدم اورآگے بڑھ گیاجبکہ لادین عناصرکوپسپائی اختیار کرنی پڑی۔
چنانچہ اگر ہم علما ء کی کامیابیوں کا قدم بہ قدم جائزہ لیںتونظر آتاہے کہ ہر متحد دینی پیش رفت پر اللہ تعالیٰ انہیںبے مثال کامیابیاں عطا فرماتارہا ہے۔ اس پیش رفت کا آغاز سب سے پہلے پاکستان میں قراردادِمقاصد کو آئین کا دیباچہ بنانے سے ہوا۔یہ ایک بھرپور مطالبہ تھا جسے لے کر جماعت ِاسلامی ۱۹۵۰۔۵۱ء میںملک کے طول و عرض میں مہم چلارہی تھی۔چنانچہ ہوا یہ کہ حکومتی بازیگروں کی مزاحمتوں کے باوجود جماعت اسلامی آخرکار سرخرو ہوئی ،اسلام دشمن قوتوں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا،اور قرارداد ِمقاصد کو انہی کے ہاتھوں آئین کا دیباچہ بناناپڑا۔ یہی وہ موقع تھا جب سید مودودی ؒ نے تاریخی اعلان کیا تھا کہ ’ ‘اب ریاست نے کلمہ پڑھ لیا ہے‘‘ ۔یعنی مملکت نے اسلامی رنگ اختیار کرلیاہے ۔ اس کے بعد جب صدر ضیاء الحق اقتدار میں آئے توانہوں نے ایک قد م مزیداٹھا یا اور دیباچے کو آئین کا عملی (Operative)حصہ بنا کر مزیدمضبوط کیا۔ یوںقراردادِمقاصداگرپہلے ہی سے آئینی دیباچہ نہ بنی ہوئی ہوتی تو آئین کا عملی حصہ بھی وہ بعد میں مشکل ہی سے بن پاتی۔ کیونکہ منہ زور قوتیں تب تک مزید منہ زور بن چکی ہوتیں۔چنانچہ قرار داد کادیباچہ بننا اور پھر اس کااعملی آئینی حصہ بننا ،دونوں ہی اقدام ملک کو دینی راہ پر لے جانے میں سنگ میل ثابت ہوئے۔
بعدازاں ذوالقار علی بھٹو کے دور میں جب ملک میںایک نیا آئین مرتب کرنے کا مرحلہ دوبارہ درپیش ہوا تواس وقت کی دستور ساز اسمبلی میں دینی مزاج کے حامل محض دس سے پندرہ ارکان نے آمر بھٹو اور اس کی سوشلسٹ پیپلز پارٹی کو ان کے سوشلسٹ نظرئیے کے باوجود لادینی آئین بنانے سےاپنی ایمانی قوت سے روک دیا۔ ڈکٹیٹربھٹو سے انہوں نےوہ متفقہ آئین تشکیل دلوایا جس نےاپنے اندر بہت حد تک جمہوری و دینی مزاج سمویا ہوا تھا او رجس میں ریاست کا نام ’’اسلامی جمہوریۂ پاکستان ‘‘ بھی پہلی بار طے کیا گیا تھا۔اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس کے بعدسے آج تک ،وہ آئین تمام پارٹیوں کی ایک متفقہ و محترم دستاویز ہے ۔اور جب بھی اس کے خلاف کوئی آوازاٹھتی ہے تو تمام سیاسی پارٹیاں مل کر اس بے ہنگم آواز کو مسترد کردیتی ہیں۔ واضح رہے کہ ایوب خان کے دور کے تشکیل کردہ اُس سیکولر آئین کو، جس میں ریاست کو’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی بجائے’’عوامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دیاگیا تھا، قوم پہلے ہی مستردکر چکی تھی۔اسی طرح علما کی قیادت میں ملک میںجب قادیانیوںکو غیر مسلم قرار دینے کی ایک بھرپور عوامی تحریک زور و شور کے ساتھ دوبارہ اٹھی تو قادیانیوں کو آئینی طور پرغیر مسلم ٹھہرانے پربھی وہی شخص مجبور ہوا جو اپنی فطرت میں لادین اور اَباحیت پسند تھایعنی ذوالفقار علی بھٹو۔ اس کے بعد سے پھر ہم نےدیکھا کہ ملک کے تمام اونچے عہدے بشمول صدر،وزیر اعظم،وزیر اعلیٰ، گورنر اور آرمی چیف وغیرہ قادیانیوں کے لیے ممنوع وحرام قرار پائے ۔ یہ دونوں کامیابیاں دراصل بہت بڑی پیش قدمی تھیں جن سے پاکستان کا دینی تشخص محفوظ و مامون ہوا اور جسے محض علما کے اتحاد کا فیضان ہی قرار دینا چاہیے۔
اس سے قبل یہودیوں کی خفیہ سازشی تنظیم ’’فری میسن ‘‘ کو بھی بھٹو کےذریعےہی پاکستان میں ممنوع قرار دلوایا گیاتھا۔ایک تنظیم جس کاکام ہی دنیا بھر کے ممالک کو کمزور کرنا ، مذاہب کو نابود کرنا،اور ا ایک آزاداَباحی خطہ بنانا ہے ،ترکی جس کی ایک نمایاںمثال رہاہے۔دینی و قومی اہمیت کے اعتبار سے یہ ملک میںایک بہت بڑی پیش قدمی تھی جسے ایک بار پھرعلما کے اتحاد کے سبب ہی کامیابی نصیب ہوئی تھی۔
بعد ازاں۱۹۷۷ ءمیں ملک کے طول و عرض میں ایک تحریک ’’ نظام مصطفے ‘ ‘ کے نام سے چلی جس کابنیادی مطالبہ ہی ملک میں ِاسلامی نظام کو رائج کرانا تھا۔ ابتداءً تو یہ صرف ’ ’بھٹو ہٹائو ‘‘ مہم تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ از خود ’’ِنظام ِ مصطفیٰ ‘‘ مہم میں ڈھل گئی ۔ چنانچہ اس کا نتیجہ بھی کامیابی کی صورت میںنکلا ۔ دین بیزاربھٹو نے خود اپنے ہی سیکو لر قلم سے ملک بھر میں نائٹ کلب اورشراب خانے ہمیشہ کے لئے آئینی طور پر بند کئے او ر صدیوں پرانی روایتی ہفتہ واری تعطیل جمعہ کا اجرا کیا۔ ایک اہم کامیابی جسے ایک بار پھرعلما کی سربراہی حاصل تھی۔
پھر جب ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو اسلامائزیشن کے جاری سست رفتارعمل کوانہوںنے اپنی جرأ ت و حرارت ِایمانی کے ساتھ تیز ترکیا اورایک ساتھ کئی اسلامی اقدامات اٹھائے ۔احترام ِ رمضان آرڈیننس و زکوٰۃ و عشر آرڈیننس کا اجرا کیا، سرکاری دفاتر میں نمازوں کے لئے جگہیں مختص کرائیں، جشن سالِ نو کوبندکرایا، بلا سود بینکاری کا آغاز کیا ، توہینِ مذہب کی سزا موت قراردی ، ٹی وی کو مسلمان کرنے کی قانونی سعی کی ، حدود آرڈیننس کا نفاذ کیا ،صدیوںکی گم شدہ اصطلاح ’’مسلم امہ ‘‘ کودوبارہ زندہ کیا،اور بھولے ہوئے سبق ’جہاد ‘ کا احیاء کیا وغیرہ ۔
اسی دوران ملک میںایک اور غلغلہ بلند ہوا۔’’ آئین میں دئے گئے ضابطوں ۶۲ اور ۶۳ کو عملی بنیادوں پر نافذکیاجائے تاکہ صرف صاف ستھرے لوگ ہی اسمبلیوں میں داخل ہوسکیں اور تاکہ عنا نِ حکومت اچھے بندوں کے ہاتھوںمیںآئے‘‘۔
ان ضابطوں پراولین اصرار کرنے والے سینیٹرقاضی حسین احمد مرحوم تھے جنہوںنے ارکان اسمبلی کی بدکرداری کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انہیںباضابطہ طورپرنافذکرنے کی طاقتورآواز اٹھائی ۔ آئین میں پہلے سے موجود ہونے کے باوجودحیرت انگیز طور پر ان کے نفاذ پرکسی نے بھی توجہ نہیں دی تھی۔وہ بس چندآرائشی دفعات ہی بنی ہوئی تھیں۔ اگرچہ کہ ان کا نفاذ عملی طور پر تاحال نہیں ہوسکا ہے ،تاہم آئینی حصہ ہونے کے باعث یہ ناممکن بھی نہیںہے۔ عوامی طورپرتو اب اسے ضروربلند آواز سے اٹھایا جارہا ہے۔ لوگ خواہش مند ہیں کہ مملکت کے بہتر نظم بہتر و نسق کی خاطر ان دفعات کا نفاذ ناگزیر ہے ۔چنانچہ اسی کانتیجہ ہے کہ تیسری بار کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ضابطہ ۶۲اور ۶۳ کی خلاف ورزی کے باعث ہی عدالتِ عظمیٰ نے سدا کے لیے نااہل قراردیا تھا ۔ اب جبکہ یہ سلسلہ چل پڑا ہے ،تونظر آتاہے کہ مستقبل میں یہ سفر ان شا ء اللہ مزید محفوظ اوربہتر ہوگااوربدکردارو بدمست لوگ عوامی نمائندگی سے فیصلہ کن طور پرمحروم قرار پائیں گے ۔
قاضی حسین احمد مرحوم ہی کی جانب سے عرصۂ دراز سے جاری فرقہ وارانہ خون ریزی کے خلاف کبھی دینی جماعتوں کا ایک غیر سیاسی اتحاد ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ بھی تشکیل پایا تھا جس کے بعد قوم نے دیکھا تھا کہ اس کی برکتوںسے خون ریزی اور تعصبات کا سلسلہ بڑی حد تک اچانک رک گیا تھا۔ لوگ تعجب کرتے تھے کہ شیعہ عقائد کے لوگ دیوبندی مدارس میں جاکر باہم اجلاس کیسے کر لیا کرتے تھے ؟اور طعام و مشروبات سے کیسے لطف اندوز ہوا کرتے تھے؟افسو س کہ خود ہم ہی نے اس مبارک اتحادکا کوئی دیرپا فائدہ نہ اٹھایااور دو تین سال بعد ہی یہ اتحاد فضا میں تحلیل ہوکے رہ گیا۔تاہم اس میں قصور اتحاد کا نہیںبلکہ دینی سربراہوں کاتھا ۔اتحادنے تو اپنی برکتیں ظاہر کرنی شروع کر دی تھیں۔
۱۹۹۰ ءمیںجب منہ پھٹ پرویز مشرف برسر اقتدارآئے تو جس قدر دینی نقصان انہوں نے ملک کوپہنچایا، اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا ۔مسلّمہ دینی اقدار اسی شخص کے دور میں بزورِ طاقت منہدم ہوئیں ،بے حیائی کو حد درجہ فروغ حاصل ہوا ، نصاب کی کتر بیونت ہوئی ،مدارس و علما کی تضحیک کی گئی،اورلال مسجد کی طالبات و اساتذہ کو جلا کر راکھ کیاگیاوغیرہ۔چنانچہ اسی کے پیشنظر ایک اورتحریک ’’دینی قوتوں کے انتخابی اتحاد‘‘کی شروع کی گئی جس میں تمام نمایاں دینی جماعتیں ایک نئی سیاسی و دینی جماعت ’’متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے)‘‘ میں ڈھل گئیں۔ حیرت انگیز طورپر اس اتحاد نےاپنے دور میں ہونے والے انتخابات میں کم از کم ساٹھ قومی نشستیں جیتیں اور سرحد میں اپنی خود مختاردینی حکومت قائم کی۔اسی کے ساتھ صوبائی اسمبلی و سینٹ میں بھی اس نے نمایاں نمائندگی حاصل کی۔ حال یہ تھا کہ اس دور میںسینٹ اور قومی اسمبلی میں جبہ ودستار اور داڑھی والوں کی بہار دکھائی دیتی تھی۔ملک کی سیاست میں دینی جماعتوں کا یہ پہلا کامیاب اتحاد تھا جسے عوام نے اپنی آواز سمجھ کر انتخابی قوت بخشی ۔مگر افسوس کہ ان میں سے بعض جماعتوں کے سربراہان مشترک مفاد کی بجائے محض پارٹی اقتدار کو ترجیح دینے لگے جس کا نتیجہ اس کامیابی کا معکوس ہوجانے کی صورت میں نکلا۔عظیم اتحاد ہونے کے کے باوجودقوم اس سے کوئی نمایاں فائدہ نہ حاصل کر سکی۔
کس کو یا د نہیں ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد مقتدر لادینی قوتوں کی جانب سے جب یہ سوال اٹھایا گیاتھاکہ ملک میں کس فرقے کا اسلام نافذ کیا جائے توجواب دینے کے لئے کراچی میں اُس دور کے جید نمائندہ علماء کا ایک اجلاس فوری طور پر منعقد ہوا تھا جس کی دوچار نشستوںکے بعد تمام مکاتب فکر پر مشتمل متفقہ ۳۱ نکات سامنے لائےگئے تھے ۔اور علما کی جانب سے اعلان کیا گیا تھاکہ یہ ہیں وہ متفقہ نکات جن کی بنیا دپر ملک میں دینِ اسلام کا نفاذ کیا جاسکتاہے۔تاہم چونکہ اس دوران حکومتیںمسلسل بنتی اور ٹوٹتی رہی تھیں، اس لئے ان کے نفاذ کی نوبت نہیںآسکی۔ حکومتیںان دنوں کبھی محض تین ماہ اور کبھی محض نو ماہ کی مدت ہی پوری کرپاتی تھیں۔ تاہم علما کے یہ متفقہ نکات قوم کے مستقبل کے لئے آج بھی مشعل راہ ہیں۔یاد رہنا چاہئے کہ اجتماعِ مذکورہ میں بریلوی ،دیوبندی ،اہلِ حدیث،شیعہ اور جماعتِ اسلامی، سب کے نمائندے شامل تھے۔
اوپر جومختصر مطالعہ پیش کیا گیاہے،اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ دینی جماعتوں اور افرادکے اتحاد نے گذشتہ ستر سالوںمیں ملک کو بہت ساری برکتیںعطا کی ہیں۔اور اس کے باوجود عطاکی ہیں کہ لادین و بدمست قوتیں دین کو روکنے کے لئے ایٹر ی چوٹی کا زور لگاتی رہیں۔ اتحاد اور باہمی جدوجہد ہی کا نتیجہ تھا کہ (۱) آئین میں ملک کا مقصدِتخلیق ، اولین طور پرتو دیباچے میں،اور بعد ازاں خود آئین کے اندر سمویا گیا(۲) ملک کو بڑی حد تک ۱۹۷۳کاایک دینی و جمہوری آئین میسر ہوا(۳) غیر سودی بینکاری کا رواج ہوا (۴) رمضان المبارک کے احترام کی آئینی پابندی کروائی گئی (۵)افواج ،طیاروں، اورہوٹلوںمیں شراب پر سختی سے پابندی عائد کی گئی (۶) نائٹ کلبوں کو جرم قرار دیا گیا(۷) ملک کی جڑیں کھودنے والے قادیانیوں کو سدا کے لئے غیر مسلم قرار دیا گیا اوران کے چہرے کو دنیا بھر میں بے نقاب کیاگیا(۸) جمعے کی سرکاری تعطیل کو پہلی بارمروج کیاگیا(۹)عوامی نمائندگی کے لئے ضابطہ ۶۲ اور ۶۳ کی شق لازمی قرار دی گئی(۱۰) تما م مسالک کے علما کے اشتراک سے ۳۱راہ نما نکات پیش کئے گئے ۔نفاذِ اسلام کی خاطرجو آج بھی سب کے لئے بنیاد ہیں (۱۱) ’تحفظ ختم نبوت‘ کے قوانین کو رائج کیا گیا اور سازشیں کرنے والے سرکاری لوگوں سے استعفے لئے گئے (۱۲) توہین ِمذہب پرسزائے موت مقرر کی گئی (۱۳) زیر زمین خفیہ یہودی تنظیم’’فر ی میسن ‘‘ کو دیس نکالا دیاگیااورا ن کی عمارتوںکو بحق سرکار ضبط کیا گیا (۱۳ )ٹی وی چینل پر اذان نشر کرنے کی پابندی کرائی گئی (۱۴) حدودآرڈی نینس کا اجرا کیا گیا(۱۵) اورپہلی بار شرعی عدالتیں قائم کی گئیں وغیرہ۔
نواز شریف دور میںحلف نامے میں کی گئی سازش کے خلاف اسلام آباد کا کئی روزہ دھرنا ، حکومت کے اوسان خطا کردینے کا سامان تھا ۔ ایسا دھرناجس نے علما کے بارے میں تمام دریدہ دہنوں کو ہلا کررکھ دیاتھا،اور جس نے فوج کو بھی مداخلت کرنے پر مجبور کیا تھا۔تحفظ نبوت کی خاطر وہ مظاہرہ ،علماکی قوت کا ایک کھلا مظاہرہ تھا۔اسی سے علما کو ملک میںاپنی اہمیت کو شناخت کرلینا چاہیے ۔
چنانچہ ا نہی تمام کامیابیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے راقم یقینی طورپر کہتا ہے کہ فروعی مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک کی دینی قوتیں اگراسلام کے بنیادی امور پر ڈٹ کر متحد ہو جائیں اور طے کرلیں کہ یہاں کوئی غیر اسلامی قانون نہیں نافذ ہونے دیا جائے گا ،تو کسی مائی کے لال کیمجال نہیں کہ قرآن وسنت کے علاوہ کوئی اوراقدام کر سکے۔ دینی طاقتیں اپنے اتحاد اور وسیع النظری کے پائیدارجوہر کے ساتھ اس ملک کو محض دو تین سالوں ہی میںایک حقیقی اسلامی جمہوری ریاست میںتبدیل ہوتی ہوئی دیکھ سکتی ہیں جن کے آگے دین کا تمسخر اڑانے والی منہ زور تنظیمیں اور افراد زمین پر چاروں شانے چت لیٹے ہوئے نظر آئیں گے ۔ ناکامی ان کا مقدر ہوگی اور رسوائی ان کا منہ سیاہ کرے گی۔ اوریہ کوئی نئی با ت بھی نہیں ہے۔’’سو بار کرچکی ہے دنیا امتحاں ہمارا‘‘ ۔ اللہ کے دین کی خاطر متحد ہوکرہم نے جب بھی اپنے رب کو پکارا،وہ ہماری مدد کو فوری پہنچاہے۔ملک میں اسلام کا نفاذ محض علما اور دینی تنظیموں کے اتحاد کا منتظرہے ۔ ہمیںاپنے ملک دشمن، مذہب دشمن، عوام دشمن اور غیر ملکی آقائوں کو دو ٹوک طریقے سے بتادینا چاہئے کہ ’’اس دیس کامقدر کچھ اور نہیں، صرف اسلام ہے۔لَاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃ۔ واشگاف الفاظ میں اعلان کرنا چاہئے کہ
یہ ملک بنا تھا اسلامی
یہ ملک رہے گا اسلامی
’’قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ‘‘۔’’جائو جاکر اپنے غیظ و غضب میںمرجائو‘‘ ۔ قدرت کا یہی فیصلہ ہے ازل سے!
جس دینی جماعت کو بھی اسمبلی میںنمائدگی ملے گی، ا س کا کام وہاں آئین و قوانین کی تیاری و محافظت ہی ہوگا۔ قومی و صوبائی اسمبلی اورسینٹ کے ایوان ہی ملک کےدستوری ودینی تحفظ کے مقامات ہیں۔ مسلک کا گزر وہاںکم ہی ہوگا۔یہ وہ نکتہ ہے جسے ہماری دینی جماعتوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہیے۔اسی کے بعد ان کے اندر دین کے کامل نفاذ کا اصل جذبہ پیداہوگا۔