دینی شعائر کا استہزاء

شہزاد رائے معروف سنگر ہیں ۔ تعلیم کے لیے فنڈ بھی اکٹھا کرتے ہیں ۔ ان کے اپنے شعور کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک سوال داغا ہے ۔ ” اگر مرنے کے بعد پتہ لگے کہ دوزخ میں وائی فائی ہے اور جنت میں نہیں تو لوگ کیا پسند کریں گے ؟”
اس سے آپ ذہنی سطحیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح دینی تصورات کو طنز و مزاح کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے ۔ اس پر بس نہیں ، ان کے مداحوں نے بھی “مزے مزے” کے کمنٹس کرکے ” انجوائے” کیا ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ میں جہنم میں دوست سے ہاٹ سپاٹ لے لوں گا ۔ کئی تو انٹرنیٹ کے بغیر جنت میں جانا ہی نہیں چاہتے ۔ اور یوں یہ مذاق اور تبصرے چل رہے ہیں ۔
پھر ایک گیم متعارف ہوئی ہے ۔ اس کو منتخب کریں تو وہ ایک موت کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے ۔ جس میں موت کی عمر ، موت کی وجہ ،آخری الفاظ ، اچھے اعمال ، برے اعمال کا حساب کتاب کرکے جنت یا جہنم کی منزل کا فیصلہ درج ہوتا ہے ۔
موت کی وجہ اور آخری الفاظ میں عشقیہ جملے ۔ طنز و مزاح اور ایسا ہی بہت کچھ شامل کیا گیا ہے۔ اس کو دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح کے ایسے خالصتاً دینی معاملات کو بھی طنز و مزاح اور تفریح کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس طرح نوجوان نسل کے ذہنوں سے مقدسات ختم ہوتی ہیں۔آخرت کا تصور اور اس کی تیاری کی بجائے ان شعائر اسلام اور دینی معاملات کو بھی ہنسی مذاق ، طنز و مزاح ، تفریح کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اور ہماری نوجوان نسل غیر ارادی طور پر بےدھیانی میں اس کا نشانہ بن رہی ہے اور اس میں شریک ہو رہی ہے۔